• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
+7
+10
رفیع عباسی ....... 1960ء کی دہائی تک پیدا ہونے والے افراد نے کٹھ پتلی کا تماشہ تو ضرور دیکھا ہوگا مگر جاپان کا ایک منفرد جزیرہ ہے جہاں کثیرآبادی انسانی شکل اور جسامت کے گڈےگڑیوں پر مشتمل ہے جوزندگی کے مختلف مشاغل میں مصروف نظر آتے ہیں۔

جاپان کے جنوب مغربی علاقے میں واقع’’ ناگورو نامی‘‘ اس گاؤں میں جیتے جاگتے انسان بھی بستے ہیں لیکن ان کی آبادی انتہائی قلیل ہے۔یہاں انسانوں سے زیادہ کپڑے، بھوسے اور گھاس پھوس سے بنی شبیہیں نظر آتی ہیں۔اس ناتے سے یہ گاؤںدنیا بھر میں ’’ گڑیوں کے جزیرہ ‘‘ کے نام سے معروف ہوگیا ہے۔

کچھ گڈے اور گڑیا اسکول میں ڈیسک کے پیچھے بنچوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔کوئی بنسی ڈالے مچھلیاں پکڑتادکھائی دیتا ہے۔کہیں نو عمر لڑکے نما ایک گڈا بیس بال کی کیپ پہنے ہوئے ہے تو کہیں سبزیوں کے اسٹال پر لوگ سبزیاں خریدتے دکھائی دیئے ۔کہیں تپتی ہوئی دھوپ میں ایک شخص درخت کے نیچے آرام کرتا ہوا ملا۔

تفصیلات کے مطابق چند عشرے قبل یہ کثیر آبادی والا گاؤں تھا لیکن جزیرہ کی آبادی کے زیادہ تر افراد نے روزگار کی تلاش میں شہری علاقوں میںسکونت اختیار کرلی جس کے باعث یہ گاؤں سکڑ کر صرف 35افراد پرمشتمل رہ گیا۔

یہاں سکونت پذیر لوگوں میں سوکیمی نامی بوڑھا شخص بھی ہے جس کی بیٹی ایانو سوکیمی اوساکا میں رہتی تھی۔وہ ایک اچھی مصورہ ہونے کے علاوہ گڑیا سازی کے ہنر میں بھی مہارت رکھتی ہے۔

تیرہ سال قبل اُسے جب اس گاؤں کی آبادی کے انخلاء کی خبر ملی، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا بوڑھا باپ سخت علیل ہے تو وہ اس کی تیمارداری کے لیےاپنے گاؤں واپس آگئی، جہاں ہر طرف ویرانی اور سناٹے کا راج تھا۔

ابتدا میں اس نے اجڑے ہوئے کھیتوں میں بیج ڈال کر سبزی اور پھل اگانے کی کوشش کی لیکن کھیتی باڑی کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس میں ناکام رہی تو اس نے کھیتوں کی بچی کھچی فصلوں کو اجڑنے سے بچانے کے لیے انسانی شکل کے پتلے بنا کر کھڑے کردیئے۔

وہ گڑیا بنانے کے کام میں بھی ماہر تھی، اس نے اپنے اس فن سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مصوری و دست کاری کے فنون کو یکجا کرکے انوکھی تخلیقات شروع کیں۔

اپنے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کے خدوخال کو بڑی بڑی گڑیا ںاور گڈوں کی شکل میں ڈھالااور انہیں ، ان ہی کاموں میں مصروف دکھایا گیا، جو وہ گاؤںمیں کرتے تھے۔

سب سے پہلے اس نے اپنے والد کی شکل اور جسامت کو ایک بڑے گڈے کی صورت میں بنایا، جنہیں بستر علالت پر لیٹا دکھایا گیا تھا۔ ان کے چہرے پر بیماری کی تکلیف اور کرب کے تاثرات نمایاں تھے۔

والد کی طرف سے حوصلہ افزائی ملنے کے بعد اس نے اپنی آں جہانی والدہ کی شکل کی گڑیا بنائی، جنہیں کچن میں کام کرتے ہوئے دکھایا گیا، اس گڑیاکے چہرے پر وہی جذبات اجاگر کیے گئے جو ایک عورت کے خوراک کی تیاری کے دوران ہوتے ہیں۔

اس طرح اس نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں اور ذہانت کو بروئے کار لا کر اس نے انسانی قدوقامت کی 350گڑیا اور گڈے بنائے۔

کچھ گڈے اس نے بچوں کے بھی بنائے جنہیں نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف دکھایا گیاہے۔ اپنے سابقہ پڑوسیوں کی شباہت کی بھی گڑیا بنائیں۔ اس کے بعد اس نے تقریباً دو سو گڑیا نزدیکی قصبات کے باسیوں کی بنائیں جنہیں ان کے گاؤں میں آویزاں کیا گیا۔

اسے سودا سلف اور کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرکے جزیرے کے دوردراز قصبے میں جانا پڑتا تھا،طویل راستے کی بوریت دور کرنے کے لیے اس نے ایک گڈا بنا یا جسے وہ ہم سفر کے طور پر اپنے ساتھ رکھتی ہے۔
تازہ ترین