• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کوہستان :ساڑھے چارسال بعد لڑکیوں کے قتل کی تصدیق

Kohistan Past Four Years Confirmed The Killing Of Girls
کوہستان میں ساڑھے چارسال بعد قتل کی جانے والی 5 لڑکیوں کی موت کی تصدیق ہوگئی ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر تیسری دفعہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کوہستان نے علاقہ پیج بیلہ پالس میں جا کر تحقیقات کی اور پہلے دو کمیشنوں کے سامنے پیش کی جانے والی لڑکیوں کو جعلی قرار دیا ۔

واقعہ 30 مئی 2012ء کا ہے جس میں بازغہ ، بشرین جان ، شاہین ، بیگم جان اور آمنہ کو 2010ء میں ایک ڈانس و یڈیوکی بنیاد پر قتل کیا گیا ۔

اس وقت کی اے این پی کی صوبائی حکومت نے واقع کو بے بنیاد قرار دیا تاہم کوہستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بار بار یہ حقائق سامنے لایا کہ 30 مئی 2012ء کو ان 5 لڑکیوں کو سرٹے یو سی بیج بیلہ میں قتل کیا گیا ہے۔

اس کے بعدواقعہ کو منظر عام پر لے کر آنے والے افضل کوہستانی کے 3 بھائیوں شاہ فیصل، شیر ولی ، رفیع الدین کو بھی قتل کر دیا گیا جن کی نعشیںمقامی پولیس چھپاتی رہی کیونکہ خدشہ تھا کہ لواحقین احتجاج کرینگے ۔

متعلقہ پولیس انسپکٹر نے ابتدائی طورپر غلط رپورٹ لکھی اور اس کے جھوٹ کو چھپانے کے لئے مقامی پولیس، ڈسٹرکٹ اور ڈویژن انتظامیہ پشت پناہی کرتی رہی سپریم کورٹ نے ایک اور کمیشن جون 2013 میں بھیجا جس نے علاقے جا کرلڑکیوں کی تصاویر مقتولین کی تصاویر کے ساتھ ملائیں۔

لڑکیوں کے والدین سمیت پچاس افراد نے تحریری کمیشن کو بتایا کہ لڑکیاں زندہ ہیں اور ہمارے پاس ہیں افضل کوہستان جھوٹ بول رہاہے ۔

کمیشن میں شامل ایک ممبر فرزانہ باری نے اختلافی نوٹ سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا ۔کمیشن نے تیسری دفعہ زندہ پیش کی جانے والی لڑکیوں کے فنگر پرنٹ حاصل کئے ۔

نادرا سے ویری فائی کیا تو پورا ڈرامہ سامنے آگیا اور انکشاف ہو اکہ کمیشن کے سامنے پیش کی گئی لڑکیاں اصلی نہیں بلکہ لڑکیوں کو قتل کردیا گیا ہے۔

افضل کوہستانی نے کہا کہ سپریم کورٹ جعلسازی اور عدلیہ کو گمراہ کرنے میں ملوث انتظامی اور سیاسی شخصیات کے خلاف کارروائی کا حکم دے۔
تازہ ترین