میں غار میں بھاگتے بھاگتے بہت دور نکل گیا۔ تاریکی اب بھی موجود تھی ۔زیادہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔یہ زمین دوز غار تھا جو اندر ہی اندر ایک ٹیلے کے نیچے دور تک پھیلا ہوا تھا ۔کچھ دور جا کر مجھے ہلکی ہلکی روشنی دکھائی دی ۔میں سمجھ گیا کہ یہی اس طویل غار سے باہر نکلنے کا راستہ ہے ۔میں اپنی چھڑی ،صندوق اور جھولا سنبھالے تیز تیز چلتے ہوئے اس موکھے تک پہنچا اور کچھ ہی دیر میں تاریک غار سے باہر نکلنے میں کام یاب ہو گیا ۔
باہر آکر میں نے اطراف میں نظریں دوڑائیں تو اندازہ ہوا کہ میں کسی جھیل کے کنارے موجود ہوں۔ میرے اطراف میں لمبی لمبی سبز گھاس اور سبز رنگ کے بڑے بڑے چکنے پتھر ہیں ۔میں نے ایک طویل سانس لے کر ادھر ادھر دیکھا ۔یہ بہت بڑی جگہ تھی ، لیکن کالے ریچھ کے غار کے مقابلے میں بہت بہترین تھی۔غار سے نجات ملنے کے بعد میں نے سکون کا سانس لیا تو مجھے یاد آیا کہ غار سے بھاگتے ہوئے کوئی چیز مجھے پریشان کر رہی تھی ،مگر دوڑتے ہوئے اس کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔اب یاد آیا، وہ میرا جھولا تھا جو بھاگتے وقت میرے جسم سے ٹکرا رہا تھا۔مجھے تکلیف پہنچا رہا تھا۔میں نے سر ہلاتے ہوئے خود سے کہا:
’’ واقعی ۔۔۔ ایڈونچر اسی کو کہتے ہیں ۔۔۔میں دوڑتے ہوئے ،اپنی جان بچاتے ہوئے اس تکلیف کو بھول گیا ۔۔۔ اس کا مطلب ہے میں ایک زبردست ایڈونچر سے گزرا ہوں۔۔۔کامی ایک بہترین خرگوش ہے ۔۔۔اس نے بہت کام کی چیز میرے جھولے میں ڈالی ۔۔۔اس کی وجہ سے میری جان بچ گئی تھی ۔۔۔لیکن اب میں کیا کروں ۔۔۔؟‘‘
میں ندی کے کنار ے بیٹھ گیا ۔سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے ۔
اسی وقت میری نظر ندی کے پانی پہ پڑی ۔ندی میں سے ایک مچھلی اچھل کر ہوا میں بلند ہوئی تھی اور ندی کے اوپر بھنبھناتے حشرات کو پکڑ کر واپس غڑاپ سے پانی میں چلی گئی تھی ۔مچھلی شکار کر رہی تھی ۔میں چونک گیا۔میرے دماغ میں آیا کہ مجھے بھی شکار کرنا چاہیے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ میں تو خالو بھالو ہوں ۔میں مچھلی کا شکارکرکے کیا کروں گا ۔میں تو مچھلی کاگوشت کھاتا ہی نہیں ۔
پھر میں نے سوچا:
’’ ہر کام کھانے کے لیے نہیں کیا جاتا ۔۔۔کچھ کام تفریح کے لیے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔مچھلی کا شکار ایک بہترین تفریح ہے ۔۔۔انسانوں کی دنیا میں اسے اسپورٹس کہا جاتاہے ۔۔۔مچھلی کے شکار کے ٹورنامنٹ ہوتے ہیں ۔۔۔میں بھی تفریح طبع کے لیے شکار کرتاہوں ۔۔۔کسی نے پابندی تو نہیں لگائی کہ کوئی بھالو مچھلی کا شکار نہیں کر سکتا ۔۔۔‘‘یہ سوچتے ہی میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں صرف شکار کروں گا ۔شکار کو انجوائے کروں گا۔ جب مچھلیاں پکڑ لوں گا تو انہیں واپس ندی میں ڈال دوں گا ۔
مجھے مچھلی کی ضرورت تو تھی نہیں۔ میرے پا س کھانے کے لیے جھولے میں پہلے ہی گاجریں اور گوبھی کے پراٹھے، مونگ پھلی کے مکھن کا کیک تھا جو کامی اور مانی کی امی ببلی خرگوشن نے میرے کھانے کے بکس میں رکھ دیے تھے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔
سب چیزیں جھولے میں موجود تھیں ۔کھانے کی کوئی فکر نہیں تھی ۔
میں نے اپنے بیلٹ میں لگا ہوا مڑا ہوا پن نکال کر اسے اس ڈوری کے سرے پہ باندھا جو مجھے کامی نے دی تھی۔جس کے ذریعے میں کالے ریچھ کے غار سے نکلنے میں کام یاب ہو ا تھا ۔ مچھلی کے شکار کے لیے ڈوری اور کانٹا تیار تھا۔
اب مچھلی کی خوراک کے لیے چارہ درکار تھا۔ کوئی ایسی چیز جو کانٹے پہ لگائی جاتی ۔مچھلی اسے کھانے کے لیے منھ مارتی اور کانٹا ا س کے منھ میں پھنس جاتا ۔
بھالو مچھلی کی خوراک کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔مجھے بھی نہیں معلوم تھا کہ مچھلیاں کھانے میں کیا پسند کرتی ہیں ۔میں نے سوچا ضرور وہ ڈبل روٹی شوق سے کھاتی ہوں گی ۔میں نے سینڈوچ کا ایک ٹکڑا توڑ کر کانٹے میں پھنسا دیا۔پھر اس کانٹے کو ڈوری سمیت پانی میں ڈال دیا۔جوں ہی کانٹا پانی میں گیا۔ پرسکون ندی کے ٹھہرے ہوئے پانی میں دائرے سے بنے اور پھیلتے چلے گئے ۔ میں سبز پتھر پہ بیٹھ کرمچھلی کے پھنسنے کا انتظار کرنے لگا۔پانی پہ بنتے اور پھیلنے والے دائروں کو دیکھنے لگا ۔دھیرے دھیرے سر ہلاتا رہا۔سوچتا رہا کہ جانے میرے اس ایڈونچر میں آگے میرے ساتھ کیا ہو نے والا ہے ۔میری کہانی میں کون سا موڑ آنے والاہے ۔مچھلی کا شکار کر رہا ہوں ۔کچھ دیر میں رات ہو جائے گی ۔میں یہ رات کہاں گزاروں گا ۔کہاں سوؤں گا ۔
ابھی میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک میرے ہاتھ کو جھٹکا لگا، ڈوری جھٹکے سے کچھ آگے کو بڑھی تھی ۔میں اچھل گیا۔اپنی سوچوں کے دائرے سے باہر آگیا۔ میرے کانٹے میں شاید کو ئی مچھلی پھنس گئی تھی ۔
وہ ڈور کو کھینچ کر آگے کی جانب بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
’’ ارے واہ ۔۔۔کانٹے میں مچھلی پھنس گئی ۔۔۔میرے کانٹے میں مچھلی پھنس گئی ۔۔۔‘‘
میری خوشی اس وقت دیدنی تھی ۔
میں اچھل اچھل کر گا نے لگا ۔
بھالو ہوں، میں بھالوہوں
جان وَروں کا خالو ہوں
کانٹا باندھا ڈوری میں
چارہ باندھا کانٹے میں
ڈوری ڈالی پانی میں
مچھلی آئی چارہ کھانے
پھنس گئی میرے کانٹے میں
میں بھالوؤں کی دنیا کا پہلا بھالو تھا جس نے کانٹے اور ڈوری کے ذریعے مچھلی کا شکار کیا تھا۔آج سے پہلے کسی بھالو نے ڈوری کانٹے کے ذریعے مچھلی کے شکار کے بارے میں سوچابھی نہیں تھا ۔میں نے نہ صرف سوچا تھا بلکہ میرے کانٹے میں مچھلی پھنس بھی گئی تھی ۔
یوں خالو بھالو ۔۔۔ دنیا کا پہلا مچھلی کا شکاری بن گیا تھا ۔میں نے جلدی سے اپنی ڈوری کو کھینچا تو پانی میں جیسے بھونچال آگیا۔ وہ شاید کوئی بہت بڑی مچھلی تھی ۔ایک دم سے اچھل کر پانی کے اوپر آگئی۔ اس کو دیکھ کر میری سٹی گم ہو گئی ۔
وہ کوئی مچھلی نہیں تھی ۔وہ ایک بہت بڑا اور بھیانک مگر مچھ تھا،جس نے اپنا بڑا سا جبڑا کھول کر مجھے دیکھا اور غرا کر کہا:’’ اوہ ۔۔ یہ تم ہو بوڑھے بھالو ۔۔۔تم نے میرا شکار کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ایک معمولی بھالو کی اتنی ہمت ۔۔۔؟‘‘
مگر مچھ کو دیکھ کر میرے حلق سے چیخ نکل گئی ۔میں نے گھبرا کر کہا:’’ نن ۔۔۔نہیں ۔۔۔میں خالو بھالو ہوں ۔۔۔مگر مچھ کا نہیں۔۔۔مچھلی کا شکار کر رہاتھا ۔۔۔مجھے مگر مچھ نہیں پکڑ نا ۔۔۔‘‘
مگر مچھ نے غرا کر کہا:’’ لیکن مجھے تو تمہیں پکڑنا ہے ۔۔۔‘‘
’’ کک ۔۔۔کک کیوں بھائی مگر مچھ ۔۔۔‘‘
’’ کیوںکہ میں نے آج تک بھالو نہیں کھایا ۔۔۔آج پہلی بار بھالو کھاؤں گا ۔۔۔اپنے بچوں کو بتاؤں گا ۔۔۔‘‘
وہ ایک دم چھلاوے کی طرح اچھل کر پانی سے باہر آیا۔ میں نے بوکھلا کر بھاگنے کی کوشش کی مگر وہ بڑا ہی تیز اور پھرتیلا مگر مچھ تھا۔اس کی دم اتنی بڑی تھی کہ میں ایک لمحے کو سکتے میں آگیا۔ میں نے سامان سمیٹا اور بھاگنے کی کوشش کی مگر دیر ہوگئی ۔
مگر مچھ کی دُم ایک زور دار دھماکے سے میرے جسم سے ٹکرائی ۔ میں خود کو سنبھال نہیں سکا اور اچھل کر ہوا میں بلند ہوا۔میرے جھولے کی ڈوری ایک بلند درخت کی شاخ میں پھنس گئی ۔ اور میں اس کے ساتھ ہوا میں لٹک گیا۔مگر مچھ مزے سے چلتے ہوئے میرے نیچے آیا۔ اور غراتے ہوئے بولا:
’’ تم یہیں لٹکے رہو ۔۔۔میں تمہیں اسی طرح اچھل کر اپنا لقمہ بنا لوں گا ۔۔۔‘‘
اس نے اپنا بڑا سا جبڑا کھولا تو میری جان ہی نکل گئی۔میں درخت سے لٹکا ہوا تھا ۔نیچے گرتا تو سیدھا اس کے جبڑوں میں چلا جاتا ۔
مگر مچھ نے میری چھڑی جھاڑیوں میں پھینک دی اور کہا:’’ ابھی تمہیں کھانے کا موڈ نہیں ہے میرا۔۔۔جب تک تمہیں کھانے کا موڈ نہ بن جائے تم یہیں لٹکے رہو گے ۔۔۔‘‘
میں درخت کی شاخ سے لٹکا ہوا تھا ۔میرےنیچے زمین پر ایک خوف ناک مگر مچھ موجود تھا۔میں نیچے گرتا تو سیدھا اس کے منھ میں جاتا ۔اور وہ مجھے ہڑپ کرلیتا۔
اگر مگر مچھ نہ بھی ہوتا تو اتنی بلندی سے گر کر مجھ جیسے بوڑھے بھالو کی ہڈیوں کا سرمہ ہی بن جانا تھا۔
نیچے دیکھنے سے بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔میں نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں بند کرلیں ۔
مجھے اپنی موت سامنے دکھائی دے رہی تھی ۔میرا آخری وقت آگیا تھا شاید۔۔۔
خالوبھالو کی داستان شاید یہیں ختم ہونا تھی ۔میں ندی کنارے مچھلی کا شکار کھیل رہا تھا۔ میرے کانٹے میں پچھلی پھنس گئی ۔لیکن یہ میری بھول تھی ۔وہ مچھلی نہیں تھی بلکہ ایک مگر مچھ تھا۔
اس مگر مچھ نے مجھے دُم مار کر درخت کی اونچی شاخ سے لٹکادیا تھا۔نیچے بیٹھ کر میرا پہرہ دے رہا تھا ۔ مجھے کھانے کے منصوبے بنا رہا تھا ۔
میں درخت کی شاخ سے لٹکا ہوا تھا ۔نیچے گرتا تو سیدھا مگر مچھ کے منھ میں جاتا اور وہ مجھے ہڑپ کر جاتا ۔
جی ہاں ۔۔۔یاد آگیا۔۔۔کہانی یہیں تک پہنچی تھی ۔
اس کے بعد کیاہوا ۔۔۔؟یہ جاننے کے لیےاگلے ہفتے تک انتظار کریں۔