• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ انتظامیہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کو ایران کے خلاف سخت موقف اپنانا ہوگا تاکہ سعودی عرب کواسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کی طرف راغب کیا جا سکے ۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ کی پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ وہ عرب ریاستوں کو ایران کا خطرہ د کھا کر اور امریکی مخالفت کا ہدف ثابت کرتے ہوئے اس حد تک کمزور کردے کہ وہ تمام ابراہام معاہدہ میں شامل ہو جائیں اور فلسطینیوں کی حمایت بھی اتنی ہی رہ جائے جتنی کشمیریوں کی حمایت ہمیں عرب ممالک سے ملتی ہے ویسے تو پاکستان بھی کشمیریوں کی حمایت بس اتنی ہی کر رہا ہے کہ آدھے گھنٹے دھوپ میں کھڑے ہو جاؤ اوراس سے زیادہ کی ارباب اختیار سے توقع رکھنا بھی بچپناہی ہوگا کیونکہ جہاں جنتر منتر سے قومی سطح کے معاملات کے حوالے سے حکمت عملی بنائی جارہی ہو، دستخط کرنے کے لئے ستاروں کی چالوں کا انتظار کیا جارہا ہو ، ان سے کسی بھی معاملہ کے حوالے سے انسانی ذہن کے استعمال کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے، حالاں کہ اس کی سخت ضرورت ہے ۔ہمارے اطراف میں صرف سعودی عرب اور ایران کے معاملات ہی نہیں چل رہے بلکہ ترکی بھی ایک قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان میں امن قائم کرنے کی غرض سے اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں مشغول ہے ۔ اس وقت جہاں افغان طالبان کے مخالفین ترکی میں موجود ہیں وہاں افغان طالبان کے نمائندے بھی ترکی میں نظر آ رہے ہیں ترکی کوششوں میں مصروف ہے کہ افغانستان میں موجود امن ویسے ہی سراب نہ ثابت ہو جیسے حامد کرزئی کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں افغانستان میں صورت حال قابو میں محسوس ہوتی تھی۔ ترکی کی تو یہ بھی کامیابی ہے کہ یو اے ای نے کہا ہے کہ ہم ترکی اور ایران سے تعلقات بہتر کر رہے ہیں مگر ہم نہ تو افغان طالبان کو مزید اپنے قریب لا سکے اور مخالفین پر تو ہم ویسے ہی اپنے دروازے بند کر چکے ہیں تو ترکی والا کردار ہم ادا کرنے کی صلاحیت کیسے حاصل کرسکتے ہے حالانکہ ہم اس کے بدرجہ اولیٰ حقدار ہے ۔ ابراہام معاہدےکے بعد خلیج میں صورتحال تیز رفتاری سے تبدیل ہوتی ہوئی محسوس ہورہی ہے مثال کے طور پر شام کے صدر کی اردن کے حکمران اور یو اے ای کے ولی عہد کے ساتھ اتنے عرصے بعد پہلی بار ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی ہے جو اہم ترین بات ہے، اسی طرح معاملہ فہم ریاستیں صورتحال کو بھانپتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے کوشاں ہیں اور یہ اندرونی استحکام کو حاصل کیے بنا حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس حوالے سے قطر نے بہت مثبت اقدام کیا ہے اور سیاسی عمل کے آغاز سے اس بات کا پیغام دیا ہے کہ وہ اندرونی استحکام بھی رکھتا ہے قطر میں ہونے والے حالیہ انتخابات میںمیرے تجزیہ کے حوالے سے یہ ایک موثر دلیل ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب کا ایک ٹی وی چینل پر اعتراض بھی ختم ہو گیا ہے جو قطر کی بڑی کامیابی ہے ۔ بیرونی دباؤ موثر ہی تب ہوتا ہے جب اندرونی آواز کو غیر مؤثر کر دیا جائے ورنہ کسی کی کیا مجال کہ ڈومور کا مطالبہ کر سکے ۔ اسی کی مانند عراق میں بھی انتخابی نتائج نے چونکا کر رکھ دیا ہے ، متقدیٰ الصدر کی جماعت نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں، وہ تنہا تو حکومت بنانے کے قابل نہیں اور اتحادی حکومت ہی بنے گی مگر اس کے باوجود وہاں پر انتخابی نتائج کو ایک غیر معمولی صورتحال سے تعبیر کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ ایرانی حکومت کے ہم مسلک عالم ہونے کے باوجود ایران مخالف اور سعودی عرب کے قریب تصور ہوتے ہیں ،وہ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملے تھے ،جس ملاقات نے یہ ثابت کردیا تھا کہ اختلافات کی بنیاد فرقہ وارانہ نہیں بلکہ مفادات پر ہے، اگر مفادات کے حوالے سے کچھ طے ہوجائے تو فرقہ واریت کوڑے کے ڈرم کی نذر کی جا سکتی ہے ۔ ویسے ایران اور سعودی عرب کے مابین بھی معاملات حل کرنے کی غرض سے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں جس کے حوالے سے سعودی وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ معاملات بہتری کی جانب گامزن ہے جب کہ لبنان میں ایرانی وزیر خارجہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم بہت سارے معاملات میں ایک نقطہ نظر تک پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی ان کو عوامی سطح پر بیان کرنے کا وقت نہیں آیا ۔ بہت خوش آئند امر ہے کہ ایسا ہو جائے کیونکہ دوسری طرف عراق میں امریکی تھنک ٹینک کے زیرِ اہتمام کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے کہ عراق کو بھی ابراہام معاہدے میں شامل ہوجانا چاہیے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے چاہیے ۔ اسرائیل سے تعلقات کی بات کی جائے تو یو اے ای، امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا کی ایک كانفرنس ہوئی ہے جس میں یو اے ای نے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ خلائی مشن اور مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کی بات کی ہے یہ کتنا غیر معمولی معاملہ ہے، جنتر منتر سے فرصت ملے تو غور ہو ۔ اس سب کو حاصل کرنے اور اسرائیل کو تسليم کروانے کیلئے مائیک پومپیو کے بیان کے مطابق طریقہ کار اختیار کرنا امریکہ کی ضرورت بن سکتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایسے حالات پیدا کر دے کہ عرب ممالک کے لیے ایران سے اور ایران کے لیے ان سے تعلقات معمول پر لانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے ۔ ایسے حالات میں پاکستان کا بہت کلیدی کردار ہو سکتا ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ اور ایران بس ہمارے آس پاس ہی واقع ہیں اور ہمارا کسی عرب یا عجمی ملک سے بھی کوئی تنازعہ نہیں ہے جو مذاکرات عراقی سرزمین پر ہو سکتے ہیں وہ ہماری میزبانی میں بھی منعقد کیے جا سکتے ہیں مگر یہ صرف وہی کر سکتا ہے جس کو دنیا عالمی پائے کا رہنما تصور کرتی ہو۔

تازہ ترین