• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی حکومت کے 3سالہ دور میں مہنگائی بالخصوص کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے اور پاکستان دنیا کا چوتھا مہنگا ترین ملک بن گیا ہے۔ ڈالر ریکارڈ 174.10روپے کی سطح پر پہنچنےکی وجہ سے کوئی نیا قرضہ لئےبغیر راتوں رات 1656 ارب روپے قرض اور 66ارب روپے سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوگیا۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں جو 2018ء میں بنگلہ دیش، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم تھیں،جنوری 2020ء میں پاکستان میں 23فیصد، بھارت میں 13فیصد اور بنگلہ دیش میں 5 فیصد اضافہ ہوا ۔ایک سروے کے مطابق کم آمدنی والے گھرانے کی گزشتہ سال آمدنی میں 17فیصد کمی جبکہ کھانے پینے کی اشیاء کے اخراجات میں 25فیصد اضافہ ہوا۔ ایک اوسط آمدنی والی فیملی جو 2020ء میں اپنی کمائی کا 30فیصد کھانے پینے پر خرچ کرتی تھی، ستمبر 2021ء میں 50فیصد سے زائد خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ اس طرح پاکستان میں ایک سال میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 66فیصد اضافہ ہوا۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق پی ٹی آئی حکومت میں مہنگائی زیادہ اور آمدنی نہ بڑھنے کی وجہ سے ایک مزدور کی حقیقی آمدنی میں اضافے کے بجائے 8فیصد کمی ہوئی جبکہ گزشتہ 3مہینوں میں مہنگائی اور کھانے پینے کی اشیاء میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ پاکستان میں گزشتہ 11مہینوں میں افراط زر 9فیصد تک پہنچ گیا ہے جبکہ اسی دورانئے میںبھارت اور بنگلہ دیش میں افراط زر 5سے 6فیصد رہا۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے اس سال جنوبی ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک کی گروتھ 7فیصد جبکہ پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 4فیصدہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ PBS کی رپورٹ کے مطابق 2021-22ء کی پہلی سہ ماہی میں تیل کی امپورٹ کے بل میں 97فیصد اضافہ ہوا جو 3مہینوں میں گزشتہ سال کے 2.3ارب ڈالر کے مقابلے میں 4.6ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ اِسی دورانئےمیں LNG کی امپورٹ میں بھی 144فیصد اضافہ ہوا۔

پاکستان کا دوسرا بڑا امپورٹ بل کھانے پینے کی اشیاء ہیں جو گزشتہ مالی سال 66فیصد اضافے سے 11.3ارب ڈالر کے مقابلے میں 18.7 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ رواں مالی سال کے صرف 3مہینوں میں کھانے پینے کی اشیاء کی امپورٹ 38فیصد اضافے سے گزشتہ سال کے 1.7ارب ڈالر کے مقابلے میں 2.4ارب ڈالر تک پہنچ گئی جن میں خوردنی تیل، چینی، دالیں اور چائے شامل ہے۔ ہم ٹیکسٹائل صنعت کیلئے کپاس کی 12سے 13 ملین بیلز سالانہ پیدا کرتے تھے جو گزشتہ سال کم ہوکر بمشکل 8ملین بیلز رہ گئی ہیں اور ہمیں 2سے 3 ملین بیلز بیرون ملک سے امپورٹ کرنا پڑرہی ہیں جو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر اضافی بوجھ بنا۔ہمیں اپنے زرعی شعبے کی طاقت کے مدنظر اسے بحال کرنا ہوگا۔

ہم کھانے پینے کی اشیاء 173روپے کے ڈالر پر امپورٹ کرکے عوام کو سستی اشیائے خورونوش فراہم نہیں کرسکتے۔ کچھ سال پہلے میری سربراہی میں فیڈریشن کے بزنس مینوں کے وفد سے ملاقات کے دوران یو اے ای کی بیرونی تجارت کی وزیر شیخا لبنیٰ خالد القاسمی نے پاکستان کو خلیجی ممالک بالخصوص امارات کیلئے فوڈ سیکورٹی فراہم کرنے کی تجویز دی تھی جس کے مطابق پاکستان میں زرعی اجناس پیدا کرکے ان کو خلیجی ممالک ایکسپورٹ کرنا تھا۔ آج پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح 138 روپے پر پہنچ گئی ہے۔ میں حکومتی وزیروں اور مشیروں کے اِن دعوئوں، کہ پاکستان میں اب بھی پیٹرول اور ڈیزل دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا ہے، کو مسترد کرتا ہوں۔ پیٹرول سستا اور مہنگا ہونے کا دارومدار عام آدمی کی قوت خرید اور آمدنی پر ہوتا ہے۔ امارات میں مزدور کی دیہاڑی پاکستانی روپے میں 3500روپے یومیہ ہے اور وہاں پیٹرول کی قیمت 117روپے فی لیٹر ہے جبکہ سعودی عرب میں یومیہ دیہاڑی 450روپے، پیٹرول کی قیمت 107 روپے، چین میں دیہاڑی 2000روپے، پیٹرول کی قیمت 205روپے، امریکہ میں دیہاڑی 10,000 روپے ، پیٹرول کی قیمت 165روپے، برطانیہ میں دیہاڑی 12,000روپے، پیٹرول کی قیمت 205روپے، بھارت میں دیہاڑی 2000روپے ، پیٹرول کی قیمت 210روپے، بنگلہ دیش میں دیہاڑی 1800روپے ، پیٹرول کی قیمت 175روپے اور پاکستان میں دیہاڑی 800روپے یومیہ جبکہ پیٹرول کی قیمت 138روپے فی لیٹر ہے۔ اِن اعداد و شمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں یومیہ دیہاڑی سب سے کم ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پیٹرول کی قیمت بہت زیادہ ہے جس کی ایک وجہ پیٹرول میں تقریباً 30روپے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی، کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس شامل ہیں اور پیٹرولیم مصنوعات ریونیو وصولی کا ایک ذریعہ ہیں۔ ایک زمانہ تھا ہم کھانے پینے کی اشیاء میں نہ صرف خود کفیل تھے بلکہ خطے کے ممالک کو ایکسپورٹ بھی کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام، زرخیز زمین، چاروں موسم اور محنت کش کسان دیئے ہیں ،بابائے قومؒ نے زرعی اور صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا لیکن افسوس کہ ہم نے پاکستان کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنادیا۔ اگر ہم نے زراعت کے شعبے کوفعال نہ کیا تو مستقبل میں مہنگائی میں مزید اضافہ عوام کا مقدر ہوگا۔

تازہ ترین