مجھے میرے گزشتہ کالم بعنوان 'مہٹہ پیلس، تاریخ کے جھروکوں میں۔۔۔!'کا فیڈ بیک بہت مثبت موصول ہوا،ہمار ی نئی نسل اس عظیم الشان عمارت کو مادرِ ملت فاطمہ جناح کے آخری ایام گزارنے کی بناء پر تاریخی سمجھتی تھی، بہت سوں کیلئے یہ خبرحیران کُن تھی کہ یہ فقید المثال محل اپنے زمانے کا تاج محل تھا جسے ایک محبت کرنے والے کراچی کے باسی ہندو تاجرنے اپنی پیاری پتنی (بیوی)کیلئے تعمیر کیا تھا، کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم انگریز سامراج سے آزادی کے بعد حکومت ِ پاکستان کو اپنا محل فراہم کرنے والے رائے بہادر شِورتن مہٹہ کی یادوں کو مٹانے کے درپے ہیں۔ تقسیمِ ہند کے فوری بعداپنی الگ پہچان بنانے کی حکومتی کوششیں شروع کی گئیں تو انتظامیہ کی جانب سے اسکا آسان حل انگریزوں اور ماضی کی نمایاں شخصیات سے منسوب شہروں، سڑکوں، عوامی مقامات اور عمارتوںکے نام کی تبدیلی نکالا گیا، میری معلومات کے مطابق آج بھی ملک بھر کے بے شمار تاریخی مقامات کو اپنی پہچان برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ گزشتہ دنوں اندرون سندھ دورے کے دوران بھی میں نے ایسے بہت سے مقامات کی تاریخ جاننے کی کوشش کی جنہیں ہم نے ان کےماضی سے کاٹ دیا ہے۔ تھرپارکر کا مشہور شہر عمرکوٹ ماضی میں اَمرکوٹ ہواکرتا تھا، یہ شہر ہندو مہاراجہ امر سنگھ نے ایک قلعہ امرکوٹ فورٹ میں بسایا تھا، یہ تاریخی شہر عظیم مغل شہنشاہ اکبراعظم کی جائے پیدائش بھی ہے، ہمایوںنے افغان بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھانے کے بعد جان بچانے کیلئے اپنے خاندان اور چند وفادار ساتھیوں کے ہمراہ یہاںپڑاؤ ڈالا تھا ، مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد یہاں مختلف علاقائی طاقتوں بشمول ایرانی، افغان، کلہورا اور تالپور وںنے کنٹرول جمانے کی کوششیں کیں، انگریز کے تسلط سے قبل یہ علاقہ راجستھان کی ریاست جودھ پورمیں شامل تھا جہاں راٹھور راجپوتوں کی حکمرانی تھی۔اسی طرح سندھ کا ضلع نوابشاہ (سرکاری نام :شہیدبے نظیر آباد)تاریخی اہمیت کا حامل ہے، اس علاقے کی بنیادیں سید نواب شاہ نے رکھی تھیں، اس تاریخی ضلع کو سرکاری دستاویزات میں پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام سے منسوب کردیا گیاہے لیکن آج بھی یہ نام زبان زد عام نہیں ہوسکا ہے۔ آزادی سے قبل لاہور میں ہندو اور سکھوں کی بڑی تعداد بستی تھی لیکن ہم نے ان کے جانے کے بعدان کے بسائے گئے محلوں اور علاقوں کی شناخت بھی چھین لی، آج کا اسلام پورہ ماضی میں کرشن نگر ہوا کرتا تھا،ساندہ کا پرانا نام سنت نگر تھا، رحمان گلی آزادی سے قبل رام گلی تھی، آج کا باغِ جناح ماضی کا لارنس گارڈن ہے،سرگنگارام بجاطور پر جدید لاہور کا معمارکہلانے کے مستحق ہیں لیکن آج اگر ہم ان سے منسوب سرگنگارام اسپتال کا نام بھی بدل دیں تو کیا یہ تاریخ سے زیادتی نہیں ہوگی ؟ اسی طرح انگریز کے دورِ حکومت میں ساہیوال شہرکو منٹگمری، فیصل آبادکو لائل پور اوراٹک کو کیمبل پور کے نام سے پکارا جاتا تھا۔یہ صرف تاریخی یادگاروں کی چند مثالیں ہیں ، اگر ہم پاکستان میں واقع تبدیل شدہ نام والے مقامات پر ریسرچ کریں تو یہ لسٹ نہ ختم ہونے والی ہے،بدقسمتی سے آزادی کی سات دہائیاں گزرجانے کے باوجود تاریخی مقامات کو اصل شناخت سے محروم کرنے کا سلسلہ جاری ہے، بطور تاریخ کے طالب علم میرے لئے یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ عوام کی وابستگی آج بھی پرانے ناموں سے ہے، یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بہت دفعہ راہگیر سے راستہ پوچھنے کیلئے پرانا نام ہی بتانا پڑتا ہے،اسی طرح جب بھی کوئی سیاح ان تاریخی مقامات کا دورہ کرتا ہے تو اسے پرانے نام سے بھی آگاہی دی جاتی ہے۔اس کی وجہ میری نظر میں یہ ہے کہ ہم تاریخی مقامات کے نام دستاویزات میںتو بدل لیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسے غیرضروری اور نمائشی احکامات سے اصل شناخت کسی صورت بدلی نہیں جاسکتی۔ پاکستان ایک عظیم تاریخی ورثے کا حامل ملک ہے، ملک بھر میں جابجا بے شمار تاریخی مقامات ہمیں ماضی کی یاد دلاتے ہوئے مثبت پیغام اجاگر کرتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک وسیع القلب ، برداشت اور رواداری پر مبنی معاشرہ ہے، یہ تاریخی مقامات دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکزبھی بن سکتے ہیں۔جب میںتاریخی مقامات کے نئے نام دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ بے جان مقامات اپنی شناخت کی بحالی کیلئے دردمندانہ فریاد کررہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے امن پسند حلقے تاریخی مقامات کو ان کی اصل شناخت واپس کرنے کیلئے میرے موقف کی حمایت کریں گے، میں یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر کسی قدیمی مقام کے اصلی نام سے ریاست کو واقعی کوئی مسئلہ درپیش ہے توپارلیمان میں قانون سازی کرکے باقاعدہ ایک اتھارٹی قائم کی جائے جو تاریخ اور حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)