ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ پولیس آج بھی نہ صرف پیچھے ہے، بلکہ نامساعد حالات میں گھری ہوئی ہے۔ پنجاب میں پولیس کو اپ گریڈ کرنے پر بہت کام ہوا بلوچستان بھی ہم سے آگے دکھائی دیتا ہے لیکن خیبر پختون خواہ پولیس کو ان تینوں صوبوں پر برتری حاصل ہے، وہاں کی پولیس کو سیاست سے پاک اور مکمل آزاد رکھا گیا ہے، جس پر کسی طرح کا کوئی غیر ضروری دباو نہیں ہے ،جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں، جب کہ بد قسمتی سے سندھ کی صورتِ حال اس لحاظ سے خاصی مخدوش دکھائی دیتی ہے کہ یہاں اب بھی پولیس کو صدیوں پرانے قوانین کی روشنی میں کام کرنا پڑرہا ہے۔
حالاں کہ جرائم کی سنگین وارداتوں میں بھی کچھ اضلاع میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا تھا، لیکن وہاں سینیئر تجربہ کار پولیس افسران کی تعیناتی کے بعد امن و امان بہتر ہوا ہے، لیکن سندھ کے تمام اضلاع خاص طور پر سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن میں مستقل اور پائیدار امن کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان نامساعد حالات اور مشکلات میں بھی آج کی پولیس چند دہائیوں پہلے کی پولیس سے بہتر کام کررہی ہے، لیکن اس وقت بھی اگر نظر ڈالی ڈالی جائے تو آدھی سے زائد گاڑیاں اور 50 فیصد پولیس حکومتی سیاست دانوں کے پروٹوکول میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔
پولیس کے پاس جو نئی اور اچھی کنڈیشن کی گاڑیاں ہیں، وہ سیاست دانوں کے پروٹوکول میں ہیں، اراکین صوبائی اسمبلی کو پروٹوکول میں گاڑی نہیں دی جاتی، ایک سپاہی دینا ہوتا ہے، لیکن یہاں تو موجودہ اراکین اسمبلی کو چھوڑیں، سابق اراکین کے ساتھ بھی گاڑیاں چلتی دیکھی گئی ہیں، اور جو پولیس تھانوں پر گاڑیاں موجود ہیں، ان میں اکثر کئی سال پرانی اور دھکا اسٹارٹ ہیں، جن کو سیکیورٹی کی ضرورت ہے۔
انہیں قانون کے مطابق فراہم کی جائے، لیکن کیا تمام اراکین اسمبلی کو سیکیورٹی وہ بھی موبائل کے ساتھ ضروری ہے۔ صوبے میں امن و امان کی مکمل طور پر بحالی قانون کی یقینی عملداری کے لیے ضروری ہے کہ سندھ حکومت در پیش صورتحال اور چیلنجز کا مقابلہ کر نے کے لیے ناصرف ضروری قانون سازی کرے، بلکہ پوسٹنگ ،ٹرانسفر اور ٹریننگ کے نظام میں میرٹ اور بہتری لائے، سندھ کے اکثر اضلاع میں 19 گریڈ کی اسامی پر 18 گریڈ کے افسر تعینات ہیں اور اکثر اضلاع کے تھانوں پر ایس ایچ اوز اور ہیڈ محرر نان کوالیفائڈ ہیں۔ 13 سال سے سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ آج بھی پولیس گاڑیوں ، جدید اسلحہ، بلٹ پروف کشتیوں، اور سب سے اہم بات نفری کی انتہائی کمی کا سامنا ہے۔
سندھ میں کئی ہزار پولیس اہل کاروں کی اسامیاں خالی پڑی ہیں اور 2016 کے بعد سندھ پولیس میں کوئی بھرتی نہیں ہوئی، جس سے پولیس پر مزید دباو آیا ہے، اتنی بڑی خطیر رقم کے بجٹ بھی رکھے جاتے ہیں، اس کے باوجود حکومت کی اس اہم محکمے پر وہ توجہ دکھائی نہیں دیتی، جو ہونی چاہیے، بلکہ یہ خبریں اکثر میڈیا کی زینت بنتی ہیں کہ وزیراعلی سندھ اور آئی جی کے درمیان ناراضگی، تنازع، یا سرد جنگ، کچھ بھی کہیں اس طرح کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں ۔
حالاں کہ ایسا ہونا ہی نہیں چاہیے۔ وزیراعلی صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ پولیس ان کا ماتحت ادراہ ہے، لیکن پہلے اے ڈی خواجہ، پھر ڈاکٹر سید کلیم امام اور اب موجودہ آئی جی مشتاق احمد مہر اور وزیراعلی کے درمیان وہی سرد جنگ کی باتیں سنائی دے رہی ہیں، ہمیں اپنی پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ آج بھی ہماری پولیس ایک وقت میں کئی محاذوں پر لڑ رہی ہے۔
ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ و سماج دشمن عناصر ، منشیات فروشوں ، معاشرتی برائیوں کا خاتمہ، چوروں جن میں خاص طور پر رات کی تاریکی میں گھروں اور دکانوں کے تالے توڑ کر وارداتیں انجام دینے والے جرائم پیشہ عناصر، موٹر سائیکل کی چوری اور چھینے جانے کی وارداتیں، سمیت مختلف قسم کی چوری ڈکیتی کا سامنا سندھ پولیس کو رہتا ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر صرف ایک تھانے کی مثال لی جائے تو کئی لاکھ آبادی اور تجارتی مراکز پر قائم اس میں جو نفری ہے، اس میں ایس ایچ او سے سپاہی تک مشکل سے 30 سے 40 کی نفری 24 گھنٹے کے لیے ہوگی، اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے، غیر ضروری تھانے ختم کرکے آبادی کے لحاظ سے تھانے قائم کیے جائیں،
ہم نے سندھ حکومت کی توجہ اس جانب متعدد مرتبہ کرائی ہے کہ سندھ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، ہمیشہ کی طرح کا روایتی بیان صوبائی حکومت کا آتا ہے کہ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کردیں گے، سندھ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے، اور صورت حال یہ ہے کہ ایک سپاہی بھرتی ہوتا ہے اور 30 سے 35 سال ہیڈ کانسٹیبل کا سپنا آنکھوں میں لیے ریٹائر ہوجاتا ہے۔
پولیس کی میرٹ پر ترقیوں کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ پولیس افسران خاص طور پر اہل کار جو کئی برسوں سے ترقی کے منتظر ہیں، انہیں ترقیاں دی جائیں۔ اس سے پولیس کا مورال بلند ہوگا اور اس کے لیے مستقل بنیادوں پر ایک نظام بنایا جائے، جو سندھ میں اس چیز کا جائزہ لے، مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو سندھ میں سکھر اور لاڑکانہ ریجن کے چار اضلاع کچے اور جنگلات کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہیں، جن میں کشمور ، شکارپور، سکھر، اور گھوٹکی ہیں۔ گھوٹکی کی سرحد پنجاب سے ملتی ہے، جب کہ کشمور کی سرحد پنجاب اور بلوچستان سے ملی ہوئی ہے اور اس ایریا میں درجنوں گینگ ہیں۔
پولیس ذرائع کے مطابق اس ایریا میں انعام یافتہ ڈاکوؤں کی تعداد بھی 300 سے زائد ہے، جب کہ ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کی مجموعی تعداد ایک ہزار سے بھی زائد ہے، متعدد مرتبہ یہ فیصلہ ہوا کہ سندھ پنجاب اور بلوچستان پولیس مشترکہ آپریشن کریں گی، لیکن اس منصوبے کو عملی جامہ آج تک نہیں پہنایا گیا، اس میں سب سے زیادہ سندھ اس کے بعد پنجاب متاثر ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں اس طرح کا مطالبہ بھی کرتی رہی ہیں ۔
گزشتہ دنوں بھی سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے گھوٹکی دورے کے موقع پر میڈیا سے بات چیت میں اباڑو میں ہیڈ کانسٹیبل کے شہید ہونے پر ڈی پی او کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں بھی چھوٹو گینگ کی طرز کا آپریشن کیا جائے، سندھ میں کچھ بھی ہوجائے، کوئی ایکشن نہیں ہوتا، دونوں صوبوں کے باڈر پر مشترکہ آپریشن کیا جائے، جب کہ چند سال قبل آر پی او ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور نے کشمور میں سندھ پولیس کے افسران کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم آئی جی اور وزیر اعلی کو لکھیں گے کہ جوائنٹ آپریشن بہت ضروری ہے، لیکن کچھ نہ ہوسکا ، اب بھی اگر صوبوں کے وزیر اعلی اور پولیس افسران اس پر متفق ہوجائیں تو آپریشن ممکن ہے، لیکن ایسا دکھائی نہیں دیتا، خیر ہمیں سندھ کے امن و امان پر فوکس رکھنا چاہیے اور مشترکہ آپریشن کی کوشیش جاری رکھنی چاہیں ،کیوں کہ جن نامساعد حالات میں سندھ پولیس خاص طور پر کشمور ، شکارپور اور سکھر کی پولیس ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر سے لڑ رہی ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ اس حوالے سے ہم نے ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں سے بات چیت کی کہ جرائم کی روک تھام کے حوالے سے کس طرح کے اقدامات کی ضرورت ہے۔
جس پر انہوں نے بتایا کہ میری سکھر میں تعیناتی کے دوران پولیس نے ریکارڈ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ڈاکوئوں، جرائم پیشہ اور سماج دشمن عناصر کے خلاف بھی بھرپور انداز سے کریک ڈائون کیا جارہا ہے۔ سکھر پولیس نے 449 پولیس مقابلوں کے دوران 27 ڈاکو مارے گئے، جن میں بدنام زمانہ اور انعام یافتہ ڈاکو بھی شامل ہیں،146 ڈاکووں کو مقابلوں میں زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا، 590 ڈاکووں کو مقابلے کے دوران گرفتار کیا گیا، ڈاکووں کے 100 سے زائد گینگ ختم کیے گئے اور ان ڈاکوؤں کے قبضے سے 33 کلاشنکوف 53 شارٹ گن 395 پسٹل ، 11 رائفلز ایک ہینڈ گرنیڈ اور سیکڑوں راونڈ برآمد کیے گئے ہیں، جب کہ ضلع بھر میں منشیات فروشوں کے خلاف بھی بھرپور کریک ڈاون کیا گیا اور 5 کلو ہیروین، 481 کلو چرس، 414 کلو بھنگ، 4160 مختلف اقسام کی شراب کی بوتلیں ، 855 لیٹر کچی شراب برآمد کرکے مجموعی طور پر 1028 منشیات فروشوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف تھانوں میں مقدمے قائم کیے گئے ہیں ، سماجی برائیوں میں ملوث 1950 جواری پکڑے گئے، جب کہ گٹکا، ماوہ اور دیگر نشہ آور چھالیہ فروخت کرنے والے 432 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
احساس کفالت پروگرام میں جعلسازی پر 17 ملزمان کو گرفتار کرکے مقدمات درج کئے گئے، جب کہ روپوش اور اشتہاریوں کے خلاف کارروائیوں میں 2027 مفرور اور 1446 اشتہاری ملزمان کو گرفتار کیا گیا، کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر 1453 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
موٹر سائیکل چوری اور چھینے کی وارداتوں کا قلع قمع کرنے کے لیے جو کارروائیاں کی گئیں، اس میں 59 کاریں، 632 موٹر سائیکلیں، 118 دیگر مسروقہ گاڑیاں برآمد کئی گئیں، بڑی تعداد میں قیمتی موبائل اور مسروقہ سامان برآمد کرایا گیا، ان گاڑیوں اور برآمد کرائے گئے مسروقہ سامان کی قیمت کئی کڑور ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 6 کڑور روپے سے زائد ہوسکتی ہے جو اصل مالکان کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ایس ایس پی عرفان علی سموں کے مطابق سکھر سندھ کا تیسرا بڑا اہم شہر اور تجارتی حَب ہے، یہاں کی آبادی 18 سے 20 لاکھ ہے، اس ضلع میں خطرناک شاہ بیلو کے ساتھ باگڑجی بیلہ بھی ہے، لیکن پولیس کام یابی کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کرتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی میں مصروف عمل ہے اور یہ کام یابی صرف میری نہیں، بلکہ میری پوری ٹیم کی کام یابی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن میں کام یابی کے لیے ضروری ہے کہ آپریشن کمانڈر ایس ایس پی خود کچے میں اپنا کیمپ قائم کرے اور اپنے جوانوں کے ساتھ آپریشن میں حصہ لے، جس طرح کشمور میں امجد احمد شیخ، شکارپور میں تنویر حسین تنیو نے کام یابیاں حاصل کیں، اسی طرح میں نے بھی اپنا کیمپ کچے کے شاہ بیلو میں قائم کررکھا ہے۔
دن شام رات کسی بھی وقت کبھی دفتر کبھی کیمپ میں ہوں، کچے میں جب کمانڈر جوانوں کے ساتھ مل کر لڑے گا تو اس سے جوانوں کا مورال بلند ہوگا، میں اکثر کچے کے کیمپ میں موجود رہتا ہوں، تاکہ ڈاکووں کی نقل و حرکت پر مکمل نظر رکھی جائے۔ ہم نے شاہ بیلو اور باگڑجی بیلو میں متعدد کام یاب آپریشن کیے ہیں، اور اس وقت بھی شکارپور سکھر سے ملنے والا کچے کا شاہ بیلو کا راستہ مکمل طور پر سیل ہے، چوکیاں قائم کردی گئی ہیں اور ہمارا ڈاکووں کے لئے ایک ہی پیغام ہے کہ ڈاکو اپنے آپ کو سرنڈر کردیں، ورنہ پولیس کی کارروائی نہیں بچ سکیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ کچے کے جنگلات کے ساتھ ہماری نظریں شہر پر بھی لگی ہوتی ہیں، کیوں کہ یہاں سندھ اور پاکستان کی بڑی مارکیٹں موجود ہیں، جہاں سیکیورٹی اور جرائم پیشہ عناصر پر نظر رکھنا پولیس کا کام ہے۔ پولیس کی اولین ترجیح عوام کی جان ومال کا تحفظ ہے، جس کے لیے ہمہ وقت الرٹ ہیں۔ سکھر کی عوام تاجر برادری سول سوسائٹی اور تمام مکاتب فکر کے لوگ اچھے ہیں۔ پولیس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔