جعلی پولیس مقابلوں میں معصوم شہریوں کی ہلاکت کے باوجود پولیس نے اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ ڈیفنس میں پولیس اہل کاروں کی فائرنگ سے نوجوان انتظار قتل کیس کا فیصلہ آ گیا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ڈیفنس میں اے سی ایل سی اہل کاروں کے ہاتھوں نوجوان انتظار کے قتل کیس میں جُرم ثابت ہونے پر مقدمے میں نامزد 2 ملزمان بلال رشید اور دانیال کو پھانسی کی سزا سنادی، جب کہ عدالت نے طارق محمود،غلام عباس، اظہراحسن، فہد خان اور شاہد کو عمر قید کی سزا سنائی ۔عدالت نے عمر قید کے ساتھ دو، دو لاکھ جرمانہ بھی عائدکر دیا۔
سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نے ڈیفنس میں پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں نوجوان انتظار کے قتل کیس کا محفوظ کیا ہوا فیصلہ سُنادیا۔ استغاثہ جُرم ثابت کرنے میں کام یاب رہا۔انتظار احمد 13 جنوری 2018 کو ڈیفنس میں اے سی ایل سی کے اہل کاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گیا تھا اور پولیس اہلکار نوجوان کو قتل کے بعد فرار ہو گئے تھے۔ مقتول کے والد نے ڈی ایس پی کے بیٹے سے جھگڑے کو قتل کا شاخسانہ قرار دیا تھا، ملزمان کے خلاف تھانہ درخشاں میں مقدمہ درج ہے۔
پولیس کی جانب سے کیے جانے والے مقابلوں پر عدالتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی سمیت پولیس کے سینئر افسران بھی سوالات اٹھا چکے ہیں۔ جعلی مقابلوں میں نقیب اللہ محسود سمیت 4 افراد کا قتل ہو، ڈیفنس میں نوجوان انتظار قتل کیس ہو ، شاہ راہ فیصل پر مبینہ مقابلے میں جاں بحق ہونے والے رکشہ ڈرائیور مقصود کے قتل کا معاملہ ہویا معصوم بچی امل کا قتل ہو،پولیس مقابلوں پر ہر دور میں سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ ڈیفنس میں اے سی ایل سی اہل کاروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے نوجوان انتظار قتل کیس میں جے آئی ٹی نے واقعہ کو ’’کولڈ بلڈڈ مرڈر‘‘ قرار دیا تھا واقعے کے فوری بعد تمام پولیس پارٹی موقع سے بھاگ گئی اور وہ تمام لوگ سادے لباس میں ملبوس تھے، جو ایس او پیز کی خلاف ورزی ہے ۔
انتظار کے والد اشفاق احمد تمام تر دبائو کے باوجود اس کیس پر ڈٹے رہے،پولیس نے رش کے مقام پر 18 گولیاں چلادیں ،آپریشن سے قبل متعلقہ تھانے کو مطلع نہیں کیا اور واقعے کے فوری بعد وہاں سے تمام تر اہل کار غائب ہوگئے ، گزشتہ دِنوں پولیس اہل کاروں نے ایک اور مقابلے کو خود مشکوک بنادیا۔ تیموریہ کے علاقے میں پولیس کی جانب سے چار ملزمان کو مختلف مقامات سے مقابلے کے دوران پکڑے جانے کا دعویٰ کیا گیا۔ تاہم اس کے کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ ملزم کو پولیس نے پکڑا تھا اور اسے راستے میں لے جاتے ہوئے گولی مار کر زخمی کیا اور اسے مقابلے کا رنگ دیا گیا۔
ایس ایس پی سینٹرل کے مطابق ویڈیو میں نظر آنے والے دونوں اہل کاروں کو معطل کر دیا گیا ہے، ا ن کا کہنا تھا کہ واقعہ کی مکمل اور شفاف انکوائری ایس پی گلبرگ کریں گے۔ غفلت اور لاپرواہی برتنے والے اہل کاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔اسی طرح رواں برس اگست میں کورنگی کے علاقے مہران ٹاؤن میں جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان شہزاد چانڈیو جاں بحق ہوا تھا۔ جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان بھی زندگی کی بازی ہار گئے، لیکن تاحال کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اس سے قبل ڈیفنس میں پولیس اہل کاروں کی فائرنگ سے معصوم بچی امل بھی اپنی جان گنوا چکی ہے ۔
رضویہ کے علاقے میں پولیس اہل کار ملزمان کو پکڑنے کے لیے مسافربس پر فائرنگ کر چکے ہیں ۔ شاہ راہ فیصل پر ملزمان کو پکڑنے کے لیے والدین کا اکلوتا بیٹا رکشہ ڈرائیور مقصود بھی پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے نہ آتی تو کبھی پولیس اہل کاروں کے اس جُرم کا پردہ چاک نہ ہوتا ۔انتظار کیس میں کئی اعلیٰ افسران کے حوالےسے بھی انکشاف ہوا تھا، مزکورہ اہل کار ایک ایس ایس پی رینک کے افسر کے ماتحت تھے اور جس نوجوان انتظار کو قتل کیا گیا تھا اس کا جھگڑا کسی ڈی ایس پی کے بیٹے سے ہوا تھا۔
باوثوق ذرائع کاکہنا ہے کہ تاہم ان تمام حقائق کے باوجود پولیس کے کسی اعلیٰ افسر کو اس کیس میں شامل ہی نہیں کیا گیا، جس کےباعث وہ روایتی طور پرصاف بچ نکلے، جب کہ مذکورہ ایس ایس پی نہ صرف تاحال اپنے عہدے پر بیٹھے ہیں بلکہ ان کی ترقی بھی کردی گئی ہے۔ شاہ راہ فیصل پر نوجوان رکشے ڈرائیور مقصود کو گولیاں مار کر اسے جعلی مقابلے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی اور بعد ازاں میڈیا پر یہ معاملہ سامنےآیا، تو پولیس اہل کاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔
تاہم اس کیس میں بھی کسی اعلیٰ افسر پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اسٹریٹ کرمنلز کو پکڑنے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے، لیکن شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں کوئی کمی نہیں آر ہی ہے۔ اس سلسلے میں پولیس کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ اگر اسی طرح ہر کیس میں نچلے رینک کے اہل کاروں کو ہی بھینٹ چڑھا یا جاتا رہے گا، تو پھر اس کے نتائج دُرست نہیں ہوسکیں گے۔ اگر کوئی اعلیٰ افسر اس میں ملوث ہے یا نہیں اس کو بھی کم از کم س شامل تفیتش کرنا چاہیے۔
ایگزٹ کنٹرول لسٹ اور بلیک لسٹ میں شامل افراد کا پاسپورٹ اب نہیں بنے گا!!
ایگزٹ کنٹرول لسٹ اور بلیک لسٹ میں شامل افراد کا پاسپورٹ اب نہیں بنے گا، شہری اب نیشنل بینک کے علاوہ کسی بھی بینک میں پاسپورٹ کا چالان جمع کروا سکیں گے۔ ڈائریکٹر پاسپورٹ سندھ خالد میمن نے جنگ کو بتایا کہ جن شہریوں کے پاسپورٹ کی مدت 6 ماہ رہ جائے گی، ان کو محکمہ پاسپورٹ کی جانب سے میسج کرکے آگاہ کیا جائے گا، تاکہ وہ اپنے پاسپورٹ کی تجدید کروا لیں۔انہوں نے بتایا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ اور بلیک لسٹ میں شامل افراد اگر پاسپورٹ بنوانے آئیں گے، تو انہیں ٹوکن ایشو نہیں ہو گا، کیوں کہ اب سسٹم میں ان کا چیک لگا ہوگا۔
خالد میمن نے مزید بتایا کہ ڈسٹرکٹ سینٹرل میں پاسپورٹ آفس کی تیاری حتمی مرحلے میں ہے اور امید ہے کہ اس سال سے ناظم آباد میں ضلع وسطی کا پاسپورٹ آفس آپریشنل ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ کے 13 شہروں میں پاسپورٹ آفس کے لیے زمین ہمیں مل گئی ہے، جہاں پاسپورٹ کے دفاتر بنائے جائیں گے، ان شہروں میں دادو، ٹھٹھہ، سانگھڑ، نوشہرو فیروز، سجاول، بدین، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار، میرپورخاص، گھوٹکی، خیرپور، شکار پور اور جیکب آباد شامل ہیں۔
دوسری جانب محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن نے فاسٹ ٹریک پاسپورٹ سروس کا آغاز کر دیا،شہریوں کو اب 48 گھنٹے میں پاسپورٹ مل سکے گا۔اس حوالے سے گزشتہ دنوں ڈی جی امیگریشن اینڈ پاسپورٹ ڈاکٹر نعیم رئوف نے سندھ زون کا دورہ کیا تھا،اسلام آباد میں جمعہ سے فاسٹ ٹریک سروس کا آغاز کیا گیا تھا، جب کہ کراچی میں پیرسے فاسٹ ٹریک سروس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ڈائریکٹر امیگریشن اینڈ پاسپورٹ سندھ خالد میمن کے مطابق فاسٹ ٹریک سروس حاصل کرنے کی 5 ہزار اضافی فیس رکھی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ارجنٹ پاسپورٹ چار سے پانچ روز میں ڈیلیور ہوتا تھا، جب کہ فاسٹ ٹریک کے ذریعے شہری دو دن میں پاسپورٹ حاصل کر سکیں گے۔