ہمارا ملک نوجوان نسل کے اعتبار سے بڑا خوش قسمت ہے کہ ملک کی ایک کثیر تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں ہم اچھے معیاری قوانین و ضوابط کےحامل تعلیمی اداروں اور عمدہ و معیاری علمی تربیت سے آراستہ اساتذہ کے زیر سایہ اعلیٰ تعلیم سےمزین کر سکتے ہیں جو نہ صرف اپنا بلکہ اس ملک کا مستقبل سنوارنے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے بہترین اداروں کا ہونا لازمی ہے اور ان اچھے اداروں میں معیار، پالیسیاں، قوانین و ضوابط کے اطلاق سے لے کر ان پر عمل درآمد اورپھر ان اقدامات پر کڑی نظر رکھنے کے لئے اعلی تعلیمی کمیشن جیسے ادارے قائم کئے جاتے ہیں جو جامعات کے تعلیمی و تحقیقی معیار کو قائم رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
2002 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی چیئرمین کے طور پر میری تقرری کے بعد ،میں نےجامعات میں تعلیم کے چار پہلوؤں کو سب سے زیادہ ترجیح دی اعلیٰ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا ، اسے قومی اور بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ،تحقیقی آلات و کتب و جرائد تک رسائی میں آسانی پیدا کرنا اور جدت طرازی کو فروغ دینا۔۲۰۰۲میں ایچ ای سی کے قیام کے دوران جامعات کو جن بنیادی مسائل کا سامنا تھا وہ اساتذہ کا معیاربھی تھا۔ جامعات میں دستیاب فیکلٹی میں سے صرف 10٪ کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگریاں تھیں اور ان میں سے 90٪ کے پاس صرف ماسٹرز یا بیچلر کی قابلیت تھی۔ 2003میں فیکلٹی کی تیاری پر سب سے زیادہ زور دیا گیا تاکہ ہمارے ذہین ترین نوجوانوں کو دنیا کے معروف اداروں میں اعلی تعلیم کے لئے بھیجا جائے اور انہیں اپنے وطن کی خدمت کے لئے تیار کیا جائے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے وجود کے پہلے عشرے میں تقریبا ً گیارہ ہزار طلباکو بیرون ملک بھیجا گیا اور مختص فنڈز میں سے زیادہ تر غیر ملکی وظائف کی فراہمی پر خرچ کئے گئے۔ دنیا کا سب سے بڑا فل برائٹ پروگرام شروع کیا گیا جس کے 50فیصد فنڈز ایچ ای سی فراہم کرتا تھا ۔ معیار کو یقینی بنانے کے لئےطلبا کو صرف امریکہ کی اعلیٰ جامعات ہی میں نہیں بھیجا گیا بلکہ ہزاروں طلباء کو جرمنی ، سوئیڈن ، فرانس ، آسٹریا ، آسٹریلیا اور چین کے بہترین اداروں میں بھی بھیجا گیا۔ انہیں واپس لانے کے لئے کئی ترغیبات دی گئیں ، ٹینیور ٹریک سسٹم متعارف کرایا گیا، جس میں ایک مکمل پروفیسر کی تنخواہ وفاقی وزراکی تنخواہوں سے 400فیصد زیادہ تھی۔ تاہم ، معیار کو یقینی بنانے کے لئے ، بین الاقوامی تشخیص کو تقرریوں سے قبل لازمی قرار دیا گیا جو کہ ان اساتذہ کے تقرری معاہدے میں درج تھیں۔ طلباکی غیر ملکی پی ایچ ڈی کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ اچھے غیر ملکی سائنسدانوں کے تعاون سے ایک لاکھ ڈالرزتک کی تحقیقی گرانٹس کے لئے درخواست دیں تاکہ وہ وطن واپسی پر اعلیٰ معیار کے تحقیقی پروگرام شروع کر سکیں۔ تحقیقی آلات کی کمی پورا کرنے اور محقق کی آسانی کے لئے مرکزی لیبز برائے آلات قائم کی گئیں۔
ایچ ای سی کا بانی چیئرمین بننے سے پہلے میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور آئی ٹی/ٹیلی کمیونیکیشن کے درجے پر بھی فائز رہا اس دوران کیمبرج ، آکسفورڈ، ایم آئی ٹی، ہارورڈاور دیگر اعلیٰ اداروں کے پروفیسروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کے اعلیٰ تعلیمی ماہرین کے ساتھ براہ راست لیکچرز کی ایک اسکیم شروع کی گئی اس طرح جامشورو ، کوئٹہ ، بہاولپور اور دیگر جگہوں کےطلبا بیک وقت لیکچرسن سکتے ہیں اور کھڑے ہو کر سوالات بھی پوچھ سکتے ہیں۔ اس اقدام سے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے میں بہت مدد ملی ، اس کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بسنے والے سینکڑوں سائنسدانوں کو ، جن میں زیادہ تر پاکستانی نژاد ہیں، ہماری جامعات میں مختصر یا طویل عرصے کے لئے خدمات انجام دینے پر بھی آمادہ کیا گیا۔مندرجہ بالا تمام اقدامات میں معیار پر کڑی توجہ رکھی گئی۔جامعات کو کسی بھی نئے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام کوشروع کرنے سے پہلے ایچ ای سی کی جانب سے درج ذیل معیار پر سختی سے عمل درآمد کرنا لازمی قرار دیا گیا جن میں:
( 1) فیکلٹی کی تقرری کے لئے کم از کم پی ایچ ڈی ہونا لازمی ؛ (2) تدریس یا تحقیق ، ہر کورس کےلئے کریڈٹ اوقات کا تعین(3)پی ایچ ڈی پروگراموں کےلئے تشخیصی اور تحقیقی کام کا تجربہ ہونا لازمی (4) تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک سے کم از کم دو غیر ملکی ریفریز کی طرف سے پی ایچ ڈی کے مقالوں کی لازمی تشخیص اور( 5) مختلف فیکلٹی عہدوں پر تقرریوں کےلئے پی ایچ ڈی کی کم از کم اہلیت لازمی قرار دی گئی ۔ چربہ بازی کی لعنت کی رو ک تھام کے لئے تمام پی ایچ ڈی کے مقالوں اور تحقیقی اشاعتوں کو ایک سافٹ ویئر کے ذریعے جانچ پڑتال کو لازمی قرار دیا گیا۔ اداروں اور جامعات کے قیام کے لئے کم سے کم معیار کو کابینہ سے منظور کر وایا گیا اور ان معیارات کو پورا کرنے میں ناکام رہنے والے بہت سے اداروں کو بند کر کے غیر معیاری جامعات بننے کےعمل کو روک دیا گیا۔
ان اقدامات کے نتائج غیرمعمولی تھے ، پاکستان کی چارجامعات پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 2008 تک دنیا کی 300،400یا 500 جامعات میں سرفہرست ہوگئیں (ٹائمز ہائر ایجوکیشن ، یوکے رینکنگ) ۔افسوس ان میں سے بیشتر اقدامات کو گزشتہ تین برس کے دوران ترک کر دیاگیا۔ غیر ملکی ماہرین تعلیم کی جانب سے براہ راست لیکچرز دینے کا پروگرام روک دیا گیا۔ غیر ملکی وظائف میں کمی کر دی گئی۔ نیشنل ریسرچ پروگرام برائے یونیورسٹیز میں ریسرچ کو سپورٹ کرنے کے 1000سے زائد ریسرچ گرانٹس کم کر کے سالانہ 100 سے کم کر دیا گیا۔ اس کے بر عکس فضول پالیسیاں متعارف کرائی گئیں جیسے کہ بیچلرز کے طلباء کا ماسٹر ڈگری کے بغیر پی ایچ ڈی پروگراموں میں براہ راست داخلہ! پینتیس نئی جامعات قائم کرنے کی فنڈنگ اور فیکلٹی کی دستیابی کے بغیر اجازت دی گئی ۔ قومی فنڈز کا بہت زیادہ ضیاع ہوا ، پچھلے 3سال کے دوران اختیار کی گئی پالیسیوں کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم کے معیار کے المناک خاتمے کے بعد اب نئی شروعات جاری ہیں، اسی کھوئے ہو ئے شاندار معیار کو حاصل کرنےکیلئے جو اس ادارے کے ابتدائی عشرے میں حاصل کیا گیاتھا۔
(مصنف پی ایم نیشنل ٹاسک فورس برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، سابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور بانی چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ہیں)