شاہین شاہ آفریدی،حارث روف اور اب آصف علی ہیرو بن گئے ہیں،ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا مشن کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بابر اعظم ،محمد رضوان ،شعیب ملک،عماد وسیم جیسے سنیئرز کامیابیوں میں حصہ ڈال رہے ہیں لیکن ہر میچ میں نیا ہیرو آگے آرہا ہے۔ افغانستان کے خلاف میچ میں18ویںاوورز کے بعد دلوں کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں اور لگ رہا تھا کہ شایدافغانستان نئی تاریخ رقم کرکے پاکستان کے خلاف پہلا ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل جیت جائے گا ۔
پاکستان نے دبئی میں ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد افغانستان کو پانچ وکٹوں سے شکست دے دی جس میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کی طرح ایک مرتبہ پھر آصف علی نے کلیدی کردار ادا کیا ۔آصف علی نے صرف سات گیندوں پر 25 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی۔ میچ کے نتیجے کے بعد سوشل میڈیا اور میڈیا میں آصف علی کا نام گونج رہا ہے کیوں کہ پاکستان کو آخری دو اوورز میں 24 رنز درکار تھے،اس وقت 19ویں اوور میں آصف علی نے افغان بولر کریم جنت کی پہلی، تیسری، پانچویں اور چھٹی گیند پر چھکے لگا کر پاکستان کو میچ جتوا دیا۔
آصف علی کے لیے ایک اور بڑا موقع تھا جس کے تقاضے شاید وہی نبھا سکتے تھے۔ پچھلے دو سال میں جتنی تنقید انہوں نے سہی ہے، غالباً وہ خود بھی ایسا ہی موقع اورا سٹیج چاہتے تھے۔ کمال بات یہ ہے کہ اٹھارہویں اوور کے آخر پر انھوں نے خود ہی شاداب کو سنگل سے روک کر خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا۔ آصف علی نے کریم جنت کے ایک اوور میں چار چھکے مارکر بظاہر مشکل دکھائی دینے والی جیت کو آسان بنادیا۔ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی اب یقینی ہے۔
مسلسل دو سال تنقید برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن ورلڈ کپ جیسے بڑے مقابلے میں اس تنقید کا بھرپور جواب دینا اس سے بھی کہیں ناقابل یقین کام ہے،آصف علی نے اپنی مہارت اور تجربے سے اس مشکل چیلنج کو بہت سادہ اور آسان کر دکھایا۔
انہوں نے ثابت کر دکھایا کہ واقعی جو لوگ ان پر اعتماد کررہے تھے وہ غلط نہیں تھے۔ دیر سے سہی لیکن انہوں نے اپنی کلاس منوادی۔آج پاکستان ٹیم نمیبیا اور اتوار کو اسکاٹ لینڈ سے مقابلہ کرے گی۔ابتدائی تین میچوں میں تین بڑی فتوحات کے بعد پاکستانی ٹیم کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کردیا ہے۔چند جذباتی شائقین تو ابھی سے پاکستان کی جیت کا علان کررہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ٹیم نے سب کو اپنی کارکردگی سے خاموش کردیا ہے۔ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ کی جیت نا ممکن نہیں ہے لیکن اتنی توقعات وابستہ نہ کی جائیں کہ کھلاڑی دباؤ میں آجائیں۔ تسلسل کی اپنی اہمیت ہوتی ہے،گو پاکستان کرکٹ میں وطیرہ یہ رہا ہے کہ عموماً ایک ہی اننگز کی بنیاد پر کیرئیر کی سمت متعین ہو جایا کرتی ہے لیکن بعض اوقات تسلسل کو بھی راہ دے دیا جاتا ہے۔آصف علی سات گیندوں میں ہیرو بن گئے،تھوڑی دیر قبل بابر اعظم نصف سنچری بناکر جس طرح راشد خان کا شکار بنے تھے لگ رہا تھا کہ وہ ولن نہ بن جائیں۔ لیکن دبئی کی ہنگامہ خیز رات آصف علی کی رات تھی۔
آصف علی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی پیچیدہ سا ہے۔ گو ان کا انٹرنیشنل ڈیبیو انضمام الحق اور مکی آرتھر کے تحت ہوا مگر مصباح اور آصف علی کے باہمی تعلق کی داستان کافی پرانی ہے۔ اب بابر اعظم کا کہنا ہے کہ میں نے آصف علی پر اعتماد کرکے انہیں ٹیم میں شامل کرایا اور انہوں نے مایوس نہیں کیا۔ بلاشبہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ،لیکن قبل ازوقت پاکستان ٹیم میں آنے سے ٹیلنٹ انصاف نہیں کرپاتا۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے آصف کی انٹرنیشنل پرفارمنس ملی جلی رہیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی گراف تیزی سے گرنے لگا۔ اس دوران وہ کچھ ذاتی پریشانیوں میں بھی گِھر گئے اور لامحالہ اس کا اثر ان کی کارکردگی میں بھی جھلکنے لگا۔
2019 میں ان کی بیٹی بیمار تھی ۔اسلام آباد یونائیٹیڈ کے اس وقت کے ہیٖڈ کوچ ڈین جونز بھی آصف علی کی بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے۔ان کی بیٹی زندگی کی بازی ہار گئی لیکن آصف علی نے کھیل میں میدان میں ہمت نہ ہاری۔ گذشتہ پچھلے دو سال میں آصف علی جتنی بار بھی قومی ٹیم کے لیے منتخب ہوئے، ہر بار ان کا نام مصباح الحق کے ساتھ جوڑکر کے کئی ایک فسانے گھڑے گئے۔ پاکستان ٹیم کے لئےآصف علی کی کارکردگی اس سلیکشن کا جواز لانے سے قاصر تھی اور دعوی کیا گیا کہ ٹیم میں شمولیت صرف پسند نا پسندکی بنیاد پر تھی۔ آصف علی کے لیے یہ بڑا سٹیج تھا، بڑا میچ تھا۔
ایک میچ قبل نیوزی لینڈ کے خلاف شارجہ میں وہ مشکل صورتحال میں تین چھکے مار چکے تھے کیونکہ بڑا کھلاڑی وہ تو نہیں ہوتا جو ایک پرفارمنس کے بعد ہی غائب ہو جائے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف آصف علی نے جس انداز میں میچ کا پانسہ پلٹا تھا، اس نے یہاں بھی امیدیں روشن کر چھوڑی تھیں۔دبئی میں ان کی بیٹنگ جوبن پر تھی۔یہی وہ آصف تھے جس کا تذکرہ مکی آرتھر،مصباح الحق ،ڈین جونز کرتے تھے لیکن انہیں عزت بابر اعظم کی قیادت میں ملی ،عبوری کوچ ثقلین مشتاق ان پر خاموشی سے کام کررہے ہیں ۔ واقعی آصف علی نے ثابت کردیا کہ فارم عارضی ہوتی ہے۔ کلاس مستقل ہوتی ہے۔شاباش آصف علی۔
انگلینڈ کے بولر بین ا سٹوکس نے آصف علی کی کارکردگی پر لکھا کہ ’نام یاد رکھنا، آصف علی ،واضح رہے کہ کول کتہ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 2016 میں کھیلے گئے ایک میچ میں انہیں کارلوس بریتھ ویٹ نے چار گیندوں پر لگا تار چار چھکے لگائے تھے، جس پر کمنٹیٹر نے کہا تھا کہ ’نام یاد رکھنا‘چنانچہ میچ کے بعد بین سٹوکس نے ان ہی الفاظ میں آصف علی کی تعریف کی۔
ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے بھارت کو دس وکٹ،نیوزی لینڈ اور افغانستان کو پانچ پانچ وکٹ سے شکست دی۔تینوں فتوحات کے بعدپاکستانی ٹیم آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں دوسری پوزیشن پر آگئی ۔ پاکستان، بھارت سےآگے نکل گیا ہے۔آئی سی سی رینکنگ میں انگلینڈ پہلے پاکستان دوسرے اور بھارت تیسرے نمبر پر ہے۔ٹورنامنٹ سے پہلے پاکستان بھارت سے پانچ پوائنٹ پیچھے تھا۔ آئی سی سی رینکنگ میں پاکستان کے رینکنگ پوائنٹس 265 ہو گئے۔ آصف علی کی کاکردگی پر ہر کوئی ان کی تعریف کررہا ہے۔
وہ خود مصباح الحق کو کریڈٹ دیتے ہیں ، سابق کپتان مصباح الحق کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے شکر گزار ہیں کیونکہ کیریئر میں مصباح نے انہیں ہمیشہ سپورٹ کیا۔ بھارتی عام طور پر پاکستان اور پاکستانیوں کا نام لیتے ہوئے کنجوسی دکھاتے ہیں لیکن بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق اسپنر ہربھجن سنگھ بھی قومی کرکٹر آصف علی کی شاندار بیٹنگ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ ہر بھجن نے کہا کہ ’آصف علی نے آخری گیند پر سنگل سے انکار کر کے بہت زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کیا۔ اگلے اوور میں انہوں نے چار بڑے چھکے مار کر ایک اسٹائل سے میچ کو مکمل کیا۔
آصف علی کا کردگی دیکھنے کے لئے ماسٹر بلاسٹر شاہد آفریدی بھی گراونڈ میں موجود تھے انہوں نے کہا کہ آصف علی مجھ سے بھی اچھا کھیلا۔میں پاک افغان میچ اور آصف علی کی فینیشنگ سے بہت لطف اندوز ہوا۔ لاجواب فتح، لاجواب کافی، لاجواب ماحول اور میری لاجواب ٹیم۔بلاشبہ لاجواب ٹیم پاکستان ،ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں لاجواب کارکردگی دکھارہی ہے۔ دو گروپ میچوں کے بعد سیمی فائنل اور فائنل،جن میں غلطی کی گنجائش نہیں ہوگی۔بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم بہت اچھا کھیل رہی ہے۔
ٹیم کی کارکردگی نے قوم کو مسکراہٹیں لوٹا دیں ہیں۔پاکستانی ٹیم کے ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق نے پاک بھارت فائنل کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔فائنل ابھی دور ہے۔اگلے میچوں میں بنچ پر بیٹھے ہوئے لڑ کوں کو آزمایا جائے تاکہ ناک آوٹ مرحلے میں ٹیم تازہ دم ہو۔حسن علی، فخر زمان، شاداب خان،محمد حفیظ سے بھی اچھی کارکردگی کی توقع ہے۔ٹیم متحد ہے اور مسلسل کارکردگی دکھا رہی ہے۔ امید ہے کہ شائقین کو اس ٹیم سے جس کارکردگی کی توقع ہے وہ قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔