اسلام آباد (طارق بٹ) وفاقی وزراء کیخلاف کارروائی، الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے دباؤ پر نہیں جھکےگا، الیکشن کمیشن نے عوامی دباؤ کو اس سے قطع نظر برداشت کیا کہ اس کی جانب سے موجودہ سال میں دباؤ متعدد بار آیا۔
تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے دو وفاقی وزراء کے خلاف احتجاج کرنے پر ان کے خلاف اس کی قانونی کارروائی ختم کرنے کیلئے ڈالے جانے والے نئے دباؤ کے سامنے جھکنے کا امکان نہیں ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے ماتحت ای سی پی کا ٹریک ریکارڈ یہ ہے کہ اس نے عوامی دباؤ کو برداشت کیا ہے اس سے قطع نظر کہ اس کی جانب سے موجودہ سال کے دوران دباؤ متعدد بار آیا ہے۔ ہر بار یہ وفاقی حکومت یا دیگر سیاستدانوں کے ردعمل کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے آگے بڑھا۔
وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر فواد چوہدری اور اعظم سواتی کے ساتھ متعدد وفاقی وزراء بھی ہوں گے جب ای سی پی اگلے چند دنوں میں ان دونوں کے خلاف شروع کی گئی کارروائی دوبارہ شروع کرے گا۔ وزیراعظم نے ان سے اظہار یکجہتی نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔
وزیر اطلاعات کے مطابق عمران خان نے پارٹی کی کور کمیٹی کو بتایا کہ فواد چوہدری اور اعظم سواتی نے انتخابی اصلاحات کی بات اپنے مفاد میں نہیں بلکہ پوری حکومت کی جانب سے کی تھی اور یہ کہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ پی ٹی آئی کا کوئی دوسرا رہنماء اس معاملے پر ان کے ساتھ کھڑا نہیں۔ 27اکتوبر کو ای سی پی نے دونوں وزراء کو ای سی پی اور سی ای سی کے خلاف نازیبا ریمارکس اور سنگین الزامات پر انہیں جاری شوکاز نوٹسز کے جوابات جمع کرانے کے لیے مزید 15دن کی مہلت دی تھی۔
ستمبر میں ای سی پی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں نے ای ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کو متعارف کرانے کے حکومت کے یکطرفہ فیصلے پر کئی اعتراضات اٹھائے تھے۔ اعتراضات کی تشہیر کے صرف ایک دو دن بعد سواتی نے ای سی پی پر رشوت لینے اور ہمیشہ دھاندلی کرنے کا الزام لگایا اور کہا تھا کہ ایسے اداروں کو آگ لگا دینا چاہیے۔
چند گھنٹوں کے بعد فواد چوہدری نے سی ای سی کو اپوزیشن کا ماؤتھ پیس کہا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ای سی پی اپوزیشن کے ہیڈ کوارٹر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ ای سی پی پر سازگار فیصلوں کو دبانے کے لیے سرکاری دباؤ ڈالا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
یہ سینیٹ پینل کی بحث کے دوران تھا کہ اعظم سواتی نے ای سی پی جیسے اداروں کو جلانے کے مشہور ریمارکس دیے تھے اور اس کے بعد فواد چوہدری بھی چیف الیکشن کمشنر پر برس پڑے تھے۔ باضابطہ طور پر مطالبہ کیا گیا کہ سکندر سلطان راجہ اور دو ارکان پر مشتمل پورا الیکشن کمیشن اپنے استعفے دے دے تا کہ حکومت نئی تقرریاں کرے۔
سینیٹ کمیٹی کو اپنے تفصیلی جواب میں ای سی پی نے لکھا تھا کہ جن ترامیم پر اسے اعتراض ہے، اس سے منصفانہ، آزادانہ اور شفاف انتخابات کرانے کے لیے اس کے آئینی اختیارات اور فرائض چھین لیے گئے ہیں اور اس لیے وہ ایسی تبدیلیوں سے کسی قیمت پر اتفاق نہیں کر سکتا۔
ایک مرحلے پر اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ ای سی پی کا کوئی اختیار چھین کر نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) یا کسی دوسرے ادارے کو نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کا واحد فورم ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انہوں نے وزیراعظم سے بات کی ہے اور انہیں اس بات پر قائل کیا ہے کہ متفقہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی منظوری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جائے۔ تاہم بعد میں پتہ چلا کہ ان کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔