• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آغا شورش کاشمیریؒ کا شمار بر صغیر پاک و ہند کے ان نامور صحافیوں میں ہوتا ہے جو بیک وقت خطیب ، ادیب، محقق اور شاعر بھی تھے ،جن کی خطابت کا پورے ملک میں ڈنکا بجتا تھا، لوگ ان کی تقریر سننے کے لئے ساری ساری رات جلسہ میں بیٹھے رہتے تھے۔ تحریک ختم نبوت ہو یا بحالی جمہوریت کی تحریک، آغا شورش کا شمیری اس کے روح رواں ہوتے تھے ان کی پوری زندگی جیل یا ریل اور ’’بھوک ہڑتال ‘‘ میں گزر گئی ۔ سخت جان شورش آمروں اور ختم نبوت کے دشمنوں سے لڑتے رہے لیکن طویل بھوک ہڑتالوں کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ اصل نام عبدالکریم تھا الفت تخلص تھا لیکن طبیعت کی شورش نے انہیں شورش کاشمیری بنا دیا۔ آغا شورش کاشمیری نے متعدد کتب تحریر کیں جن میں پس دیوار زنداں، بوئے گل نالہء دل دودِ چراغِ محفل ، موت سے واپسی ،شب جائے کہ من بودم ، اس بازار میں، مولانا ابوالکلام آزادؒ ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ ، حمید نظامی ، چہرے،پنجاب کی سیاسی تحریکیں ، گفتنی نا گفتنی ، الجہاد و الجہاد ، دیوان شورش ، مولانا ظفر علی خان ، فنِ خطابت ، چہ قلندرانہ گفتم ، یورپ میں چار ہفتے، خطباتِ آزاد ، عجمی اسرائیل ، تحریک ختم نبو ت ، فیضانِ اقبال اور اقبالی مجرم وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ آغا شورش کا شمیری نے ایک موقع پر کہا کہ ’’ ہم مر جائیں گے لیکن اپنی تحریروں کی وجہ سے صدیوں زندہ رہیں گے۔‘‘ کم و بیش نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ان کا ثانی مقرر پیدا نہ ہو ا 25اکتوبر1975ء کو آغا شورش کاشمیری اپنے اللہ تعالی کے حضور پیش ہو گئے، برسی خاموشی سے گزر گئی۔ ممکن ہے آج کی نسل کو برصغیر پاک و ہند کے اس بڑے دانشور اور صحافی کے بارے میں کچھ علم نہ ہو۔ ملک میں میر خلیل الرحمٰن ، حمید نظامی او شورش کاشمیری کا طوطی بولتا تھا، ان کا ہفت روزہ چٹان ملک کا مقبول ترین ہفت روزہ ہوا کرتا تھا ، اس کے قارئین آغا شورش کا شمیری کے اداریے اور کلام کا انتظار کرتے تھے۔ شورش کا شمیری نے اپنے سفر آخرت پر بھی نظم لکھی تھی جس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں

عمر بھر جس کو رہا حاصل خطیبانہ کمال

جس طرف نکلا جہاں پہنچا فضا پر چھا گیا

اس کے سر پہ تھا فروزاں سایہ ایزد تعال

دس برس تک سختیاں جھیلیں بنام حریت

قید تنہائی میں کاٹے جس نے اپنے مہ و سال

شاعرانہ روپ تھا اس کی زباں کا بانکپن

اس کے لہجے سے ٹپکتا تھا ادیبانہ جمال

بات سچی دار کے تختہ پہ بھی کہتا تھا وہ

ٹوکتا کوئی اسے کسی شخص میں تھی نہ مجال

ہر دور میں ہر حال میں تابندہ رہوں گا

میں زندہ و جاوید ہوں تابندہ رہوں گا

1968-69ء میں آتش جواں تھا ایوب خان کے خلاف تحریک عروج پر تھی میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اصغر مال راولپنڈی کی سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے تحریک میں سرگرم عمل تھا وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد ایوب خان کے خلاف تحریک کے روح رواں تھے ۔ پنجاب کے دل ’’لاہور‘‘ میں آگ لگی ہوئی تھی شورش کاشمیری ؒ کی صاحبزادی لالی کی خار دار تاروں میں الجھی تصویر نے تحریک کو مہمیز دی تھی۔میری آغاز صاحب سے پہلی ملاقات میکلوروڈ روڈ پر ہفت روزہ چٹان کے دفتر میںہوئی۔ شورش کاشمیری ؒ کی پاک ٹی ہائوس میںبیٹھک ہوتی تھی وہ انار کلی میں احسان دانش کے دولت کدہ پر بھی جایا کرتے تھے لاہور میں فروری 1974ء میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کی آڑ میں قائد اعظم کے پاکستان کو دو لخت کئے جانے کی سرکاری طور پر تصدیق پر شور ش کا شمیری بہت زیادہ مضطرب دکھائی دئیے وہ بڑی دیر تک مزار اقبال پر چپ چاپ بت بنے کھڑے رہے، ان کی آنکھیںپر نم ہو گئیں اور زیر لب اتنا کہا کہ ’’میں سوچ رہا ہوں کہ آج علامہ اقبال کی قبر تو نہیں پھٹ گئی‘‘۔

جب کبھی پاکستان میں ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو شورش کاشمیری کی بہت یاد آتی ہے انہوں نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کو ختم نبوت کے عقیدہ کو آئینی تحفظ دینے کی ترغیب دی پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کے قانون میں ’’چالاکی اور عیاری‘‘ سے ختم نبوت پر یقین کے’’ حلف‘‘ کو ’’اقرار‘‘ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو پارلیمنٹ میں ’’زندہ ہے شورش زندہ ہے ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دی شیخ رشید احمد اور کیپٹن (ر) محمد صفدر نے خاص طور پر شورش کاشمیری کا ذکر کیا شورش کا شمیری نے دور غلامی میں انگریز سے آزادی کا عَلم اٹھایا بارہا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جیل یاتر کو ’’حجلہ عروسی‘‘ سمجھا اور جیل میں جرات و استقامت کی داستانیں رقم کیں، اگرچہ وہ مولانا ظفر علی خان اور سید عطااللہ بخاری کی فکر کے محافظ تھے لیکن مولانا ظفر علی خان انہیں رستم زماں کہا کرتے تھے۔ شورش نے علم و ادب اور صحافت کو نئے اسلوب سے روشناس کرایا۔ جراتمندانہ لب و لہجے کو فروغ دیا۔ انہوں نے تین سو سے زائد نئی اصطلاحات متعارف کرائیں، جس کا اعتراف جوش ملیح آبادی، ساحر لدھیانوی اور احمد ندیم قاسمی نے بھی کیا۔

تازہ ترین