• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی کی یہ وضاحت یقینا درست سمت میں اہم پیش رفت ہے کہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کیلئے امریکہ اپنے عزم پر قائم ہے اور بعض پیچیدگیوں کے باوجود پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کو ضروری تصور کرتا ہے۔امریکی ترجمان نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز واشنگٹن میں اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کیا۔اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں کبھی کبھی تناؤ آجاتا ہے لیکن ہر مسئلے پر اختلاف نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے میں ہمارے خطرات، تحفظات اور مفادات مشترک ہیں،لہٰذا ہم اسلام آباد سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے کام جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے جمعرات کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں ایف سولہ طیاروں کیلئے امریکہ کی جانب سے سبسڈی دیے جانے سے انکار کے حوالے سے تحریک التواء پر بحث کو سمیٹنے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ پاک امریکہ تعلقات گزشتہ تین ماہ سے سردمہری کا شکار ہیں۔مشیر خارجہ نے بتایا تھا کہ طیاروں کے ضمن میں امریکی رویے کی وجوہات میں بھارتی کوششوں کے علاوہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں، شکیل آفریدی اور حقانی نیٹ ورک کے معاملات پر امریکی دباؤ قبول کرنے سے پاکستان کا انکار بھی شامل ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر تحفظات ظاہر کیے جو ہم نے مسترد کردیے، شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کیا جسے ہم نے قبول نہیں کیا، حقانی نیٹ ورک سے تعاون کا بے ثبوت الزام لگایا لہٰذا ہم نے اسے بھی درست تسلیم نہیں کیا۔مشیر خارجہ نے دوٹوک الفاظ میں یہ خوش آئندوضاحت کی کہ پاکستان اپنی سلامتی اور قومی ترجیحات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ جان کربی سے پاک امریکہ تعلقات پر سوال واضح طور پر سرتاج عزیز کے اس اظہار خیال کے تناظر میں کیا گیا تھا تاہم جب امریکی ترجمان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی مشیر خارجہ کے بیان پر ان کے تاثرات کیا ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ بیان دیکھا ہی نہیں اس لیے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کی یہ بے خبری جس قدر حیرت انگیز ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔تاہم ان کی یہ وضاحت بہرصورت خوشگوار ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کیلئے کوششیں جاری رکھنے کا عزم رکھتا ہے۔خطے میں پاکستان کو جو اسٹرے ٹیجک اہمیت حاصل ہے ، دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے میں پاکستان جو کلیدی کردار ادا کررہا ہے اورپاک چین اقتصادی راہداری جیسے منصوبوں کی بناء پر اِن شاء اللہ مستقبل قریب میں پاکستان کی اہمیت میں جتنا اضافہ ہونے والا ہے،اس کے باعث پاکستان سے بہتر تعلقات امریکہ کیلئے یقینا ناگزیر ہیں۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ امریکہ سات عشروں کی تاریخ کی بنیاد پر اپنے بارے میں پائے جانے والے اس تاثر کو ٹھوس عملی اقدامات سے دور کرے کہ اس کی جانب سے ہمیشہ پاکستان سے اپنے مفادات کیلئے کام لیا جاتا ہے لیکن مطلب پورا ہوجانے کے بعد پاکستان کو اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پاک بھارت جنگیں ، بنگلہ دیش کا قیام، افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال، ایسے تمام مواقع پر امریکہ پاکستان کے مفادات کو یکسر نظر انداز کرتا رہا ہے۔ تنازع کشمیر کے اب تک اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہ ہوپانے کا بنیادی سبب بھی امریکہ کی عدم دلچسپی ہی ہے۔ آج بھی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان کی تمام قربانیوں کے باوجود امریکہ پاکستان کے مفادات کو خاطر میں لائے بغیر بھارت کو خوش کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے۔ امریکہ اگر پاکستان سے بہتر تعلقات کا خواہش مند ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام تحفظات دور کیے جائیں۔ پاکستان کے مفادات کی قیمت پر بھارت کو خوش رکھنے کی حکمت عملی تبدیل کی جائے، محض دفاعی مقاصد کیلئے بنائے گئے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے خلاف مہم جوئی ترک کی جائے ،خطے میں امن کیلئے پاکستان کی کوششوں میں مؤثرعملی اقدامات کے ذریعے تعاون کیا جائے اور پاکستان کے خلاف کیا جانے والا منفی پروپیگنڈہ ترک کیا جائے۔
تازہ ترین