عالمی ادارۂ صحت اورانٹر نیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن کے تحت ہر سال14نومبر کو دُنیا بَھر میں’’عالمی یومِ ذیابطیس‘‘منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔دراصل ماضی میں ذیابطیس ٹائپ وَن سے متاثرہ افراد انسولین نہ ہونے کے سبب لقمۂ اجل بن جاتے تھے،لہٰذا ڈاکٹر فریڈرک بینٹنگ(Frederick Banting) نے انسولین کی تیاری پر کام کا آغاز کیا اور شب و روز کی محنت کے بعد بالآخر1921ءمیں انسولین متعارف کروا دی گئی۔ عالمی ادارۂ صحت اور انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن نے ڈاکٹر فیڈرک کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے14 نومبر کا انتخاب کیا،جو ان کی پیدایش کا دِن ہے۔ اس دِن کے لیے ہر سال مختلف تھیم یا سلوگنز منتخب کیے جاتے ہیں۔
اِمسال یہ دِن"Access To Diabetes Care: If Not Now,When?" تھیم کے ساتھ منایا جا رہا ہے اور نہ صرف اس سال، بلکہ2023ءتک کے لیے اسی تھیم کو جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔مذکورہ تھیم منتخب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دُنیا بَھر میں کئی ملین مریض ایسے ہیں، جن کی مختلف وجوہ کی بنا پر معیاری علاج تک رسائی نہیں۔ ان مریضوں کواپنے مرض پر کنٹرول رکھنے اوراس کی پیچیدگیوں سے محفوظ رہنے کے لیے مسلسل دیکھ بھال اور مدد کی ضرورت ہے،لہٰذا اب مزید انتظار کیے بغیر ہر سطح تک ادویہ، جدید علاج کی سہولت،مدد، دیکھ بھال اور نگہداشت تک رسائی ناگزیر امر بن چُکی ہے۔
ذیابطیس کا مرض پاکستان ہی نہیں، بلکہ پوری دُنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق 1980ءمیں ذیا بطیس سے متاثرہ افراد کی تعداد108ملین تھی، جو کہ 2014ءمیں بڑھ کر 422ملین ہوگئی،جب کہ یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ مرض کے پھیلاؤ کی شرح زیادہ آمدنی والے مُمالک کی نسبت کم آمدنی والے مُمالک میں بُلند ہے۔ واضح رہے، ذیابطیس ایک ایسا عارضہ ہے، جو غفلت و لاپروائی کی صُورت میں نابینا پَن، گُردوں کی خرابی، فالج، ہارٹ اٹیک کے علاوہ پاؤں یا ٹانگ کٹنے کا بھی سبب بن سکتا ہے۔
یہاں تک کہ2019ءمیں1.5ملین افراد کی اموات کا سبب یہی مرض تھا۔ انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن کی 2019ءکی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ہرسال20سے79برس کی عُمر کے 463ملین افراد ذیابطیس سے متاثر ہوتے ہیں۔ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اگر اضافے کی یہی شرح برقرار رہی، تو 2024ءتا2045ء یہ تعداد 700ملین ہو جائے گی۔ المیہ یہ ہے کہ ذیابطیس سے متاثرہ79فی صد مریضوں کا تعلق کم یا درمیانی آمدنی والے مُمالک سے ہے۔
فی الوقت، دُنیا بَھر میں65سال کی عُمر کےہر 5افرادمیں سے ایک رد ذیابطیس سے متاثر ہے،جب کہ232ملین افراد اپنے مرض سے لاعلم ہیں۔1.1ملین بچّے اور نو عمر افراد ذیابطیس کا شکارہیں، تو سالانہ4.2ملین افراد انتقال کرجاتے ہیں۔
نیز، 374ملین افراد میں ذیابطیس سے متاثر ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔انٹرنیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن ہی کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں17.1افراد ذیابطیس میں مبتلا ہیں اور یہ تعداد ماضی کی نسبت زیادہ ہے۔ پاکستان میں ذیابطیس اور پِری ذیابطیس افراد کی(یعنی ایسے افراد جنہیں ذیابطیس ہونے کا خطرہ لاحق ہو)تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یوں تو پورےپاکستان ہی میں ذیابطیس کے مریض موجودہیں،لیکن صوبۂ سندھ میں مرض کی شرح بُلند، جب کہ خیبر پختون خوا میں مریضوں کی تعداد سب سے کم ہے۔
ذیابطیس کی مختلف اقسام میں سے ٹائپ وَن اور ٹائپ ٹو زیادہ قابلِ ذکر ہیں۔ذیابطیس ٹائپ وَن کے علاج کے لیے انسولین ناگزیر ہے۔ یہ قسم عموماً بچّوں اور نو عُمر افراد کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ اس کی علامات بہت واضح اور شدّت کے ساتھ اچانک ظاہر ہوتی ہیں۔ ذیابطیس ٹائپ وَن کی عمومی علامات میں بھوک، پیاس زیادہ لگنا، بار بار پیشاب آنا، تیزی سے وزن کم ہونا، بینائی کی کم زوری اور تھکن وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری قسم ذیابطیس ٹائپ ٹو کہلاتی ہے، جو عموماً بڑوں میں عام ہے۔ ذیابطیس ٹائپ ٹوکے ابتدائی مرحلےمیں جسم میں انسولین زیادہ مقدار میں بنتی ہے، مگر اپنا کام درست طریقے سے انجام نہیں دے پاتی۔ اس مرحلے کو انسولین مزاحمت کا مرحلہ کہا جاتا ہے۔انسولین زیادہ بننے کی وجہ سے مریض کو بھوک زیادہ لگتی ہے، نتیجتاً بسیار خوری کے سبب وزن تیزی سے بڑھنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذیابطیس ٹائپ ٹو کے زیادہ تر مریض ابتدا میں فربہ ہوتے ہیں، مگر کچھ ہی عرصے بعد انسولین میں کمی واقع ہونے لگتی ہے، تو انہیں انسولین کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ذیابطیس ٹائپ ٹو میں علامات کئی برسوں بعد ظاہر ہوتی ہیں اور تشخیص کے وقت علامات کی شدّت کم ہوجاتی ہے۔بچّوں میں فاسٹ فوڈز، انرجی ڈرنکس اور کولڈڈرنکس کے زائد استعمال سے کم عُمری کا موٹاپا ذیابطیس کا سبب بنتا ہے۔ذیابطیس کی ایک قسم Gestational Diabetes بھی ہے، جو دورانِ حمل لاحق ہوکر، زچگی کے بعد خود بخود ختم ہو جاتی ہے، لیکن مستقبل میں ماں اور بچّے میں ذیابطیس سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔اگر متوازن غذا کا استعمال کریں، روزانہ ورزش کی جائے، وزن پر قابو رہے، تمباکو نوشی سے دُور رہا جائے، تو ذیابطیس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
عام طور پرذیابطیس کی تشخیص کے لیے خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔اگر ناشتے سے قبل بلڈ شوگر80تا 100ملی گرام فی ڈیسی لیٹر اور کھانے کے دو گھنٹے بعد 80تا140ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہو،تو ایسے افراد ذیابطیس کا شکار نہیں ہوتے، جب کہ جن افراد کی ناشتے سے قبل بلڈ شوگر 100تا125ملی گرام فی ڈیسی لیٹر اور کھانے کے 2گھنٹے بعد 140تا199ملی گرام فی ڈیسی لیٹر ہو، تو انہیں پِری ڈائی بیٹک مریض کہا جاتا ہے، جنہیں مستقبل میں5یا10سال میں ذیا بطیس لاحق ہوسکتی ہے۔
تاہم، ان افراد کو ذیابطیس میں مبتلا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔لیکن اگر کسی کی ناشتے سے قبل بلڈ شوگر 126ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس کے برابر ہو اور کھانے کے دو گھنٹے بعد 200ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس سے زیادہ ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ ذیابطیس کا مرض لاحق ہو چُکا ہے۔ ذیابطیس کی تشخیص کے لیے ہیمو گلو بن اے وَن سی ٹیسٹ (Hemoglobin A1C)بھی کیا جاتا ہے۔اگر اس کا رزلٹ 5.7فی صد سے کم ہو، تو یہ نارمل کہلائے گا۔
اگر5.7 سے 6.4فی صد ہے، تو ان افراد کو پری ڈائی بیٹک میں شمار کیا جاتا ہے، جب کہ6.5 فی صد یا اس سے زائد کا مطلب ہے کہ ذیابطیس کا مرض لاحق ہوچُکا ہے۔ نیز، معروف ماہرِ امراضِ ذیابطیس، پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط اور ان کی ٹیم نے شب و روز کی محنت کے بعد ایک ریپڈ اسکور بھی ترتیب دیا ہے، جس سے محض چند منٹوں میں یہ تشخیص ہو سکتا ہے کہ ذیابطیس کا مرض لاحق ہوچُکا ہے یا اس میں مبتلا ہونے کے امکانات ہیں۔ اس ضمن میں صرف تین سوالات کے جوابات دے کراپنا اسکور معلوم کیا جاسکتا ہے۔
٭عُمر؟ اگر عُمر 40سال سے کم ہو تو اسکور0ہوگا۔ 40سے50سال کی درمیانی عُمر کے لیے اسکور1ہے،جب کہ50سال سے زائد عُمرکا اسکور3ہوگا۔
٭کمر کا حجم؟خواتین میں31.5انچ(یعنی80میٹر) سے کم ہو تو اسکور0ہوگا۔ 31.5سے زائد کا اسکور2ہوگا ،جب کہ مَردوں میں35.5انچ (90میٹر) سے کم کا اسکور صفر ، جب کہ35.5 انچ(90سینٹی میٹر)سے زیادہ کا اسکور2 ہوگا۔
٭ ذیابطیس کا عارضہ فیملی ہسٹری میں شامل ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے، تو اسکور1،بصورتِ دیگر 0 ہوگا۔
اب حاصل کردہ نمبرز جمع کرلیں۔ اگر4یا اس سے زیادہ اسکور آرہا ہے، تو آپ کو ذیابطیس لاحق ہونے کا خطرہ ہے، لہٰذا معالج سے فوری طور پر رابطہ کر کے ذیابطیس کا ٹیسٹ کروالیں۔
ذیابطیس کا علاج خاصا منہگا ہے، خصوصاً نجی سیکٹر میں اسپیشلسٹس کی بھاری فیسز اور ادویہ منہگی ہونے کے سبب سفید پوش یا کم آمدنی والے افراد کی تو وہاں تک رسائی ہی ممکن نہیں ، جس کا نتیجہ ذیابطیس کی پیچیدگیوں کی صُورت ظاہر ہوتا ہے اور جب پیچیدگیاں ظاہر ہونے لگیں، تو ذہنی، جسمانی اور معاشی بوجھ بڑھ جاتا ہے، خاص طور پر تیسری دُنیا کے مُمالک میں، جہاں وسائل کم اور مسائل زیادہ پائے جاتے ہیں۔حالاں کہ ’’ذیابطیس کے علاج تک رسائی‘‘ ہر مریض کا بنیادی حق ہے،تب ہی سال2021ء کا تھیم یہی منتخب کیا گیا۔
لیکن اس کے علاج تک رسائی فردِ واحد یا صرف حکومت کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے حکومت کونجی سیکٹرز سے شراکت داری کرنا ہوگی اور سرکاری سطح پر فیملی فزیشنز کو تربیت دینا ہو گی۔ اگرچہ پاکستان کا شمار تیسری دُنیا کے مُمالک میں کیا جاتا ہے، لیکن ہمارے یہاں اس کام کا آغاز بہت پہلے پروفیسر ڈاکٹر محمّد صمد شیرا کی سربراہی میں ’’ذیابطیس ایسوسی ایشن‘‘ کے قیام کی صُورت کردیا گیا تھا، مگر ایسوسی ایشن کے ماتحت چوں کہ ایک ہی اسپتال تھا، جس کے پلیٹ فارم سے مُلک میں موجود تمام مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنا ممکن نہ تھا، لہٰذا پروفیسر عبدالباسط اور ان کی ٹیم نے بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائی بیٹالوجی اینڈ اینڈوکرینالوجی (Baqai Institute Of Diabetology And Endocrinology) کے زیر انتظام متعدّدفیملی فزیشنز کو ذیابطیس میں ڈپلوما کروایا۔ بعدازاں، ان تربیت یافتہ معالجین نے مُلک بَھر میں ذیابطیس سینٹرز قائم کیے۔ اور اب ان سینٹرز میں معمولی فیس کے عوض ذیا بطیس کا معیاری اور جدید علاج فراہم کیا جارہا ہے۔
اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر زمان شیخ کے زیرِ نگرانی کئی سرکاری اور نجی یونی ورسٹیز میںڈائی بیٹیز اینڈ اینڈوکرائن میں فیملی فزیشنز کے لیےایم ایس سی پروگرام کا اجراء کیا گیا۔واضح رہے،’’کالج آف فیملی میڈیسن‘‘،کی جسے انٹر نیشنل ڈائی بیٹیز فیڈریشن نے ذیابطیس ایجوکیشن کے لیے بہترین ادارہ قرار دیا ہے، روحِ رواں ڈاکٹر شہلا نسیم نے ابتدا میں فیملی فزیشنز کے لیے"Fight Diabetes" نامی کورس متعارف کروایا، جو دُور دراز کے معالجین کے لیے آن لائن تھا۔بعد ازاں،’’ذیابطیس اینڈ اینڈوکرائن‘‘ میں ایم ایس سی پروگرام شروع کیا گیا، تاکہ فیملی فزیشنز تمام شہروں سے تربیت حاصل کر سکیں۔ آج اس پروگرام سے پاکستان ہی نہیں، سعودی عرب، دبئی، ملائیشیا، انڈونیشیا، کینیڈا اور کئی مُمالک کے معالجین مستفید ہو رہے ہیں۔
اس کام میں معاونت کے لیے پرائمری کیئر ذیابطیس ایسوسی ایشن نے ایک جامع پروگرام بھی تشکیل دیا ہے، جس کے تحت پاکستان کے شہروں میں اپنے نمائندہ ڈاکٹرز منتخب کرکے اُنہیں ذیابطیس کے علاج کی تربیت دی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنے علاقے کے معالجین کو ذیابطیس کے علاج کی تربیت دے سکیں۔اس پروگرام کا آغاز گزشتہ برس ڈاکٹر سیّد منصور علی نے کیا، جو ذیابطیس کے ماہرین میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ اگرچہ اب ڈاکٹر منصور ہم میں موجود نہیں، لیکن اُن کا یہ مشن تب تک جاری رہے گا، جب تک ذیابطیس کے مریضوں کو اپنے اپنے شہروں میں گھر کے قریب ہی اس مرض کے علاج کی سہولت دستیاب نہیں ہوجاتی۔
ذیابطیس کے علاج تک رسائی کے لیے ہم سب کو مل جُل کر کام کرنا ہوگا، کیوں کہ ایک تو ویسے ہی ذیابطیس کا علاج منہگا ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی پیچیدگی بھی لاحق ہو جائے، تو اخراجات کئی گُنا بڑھ جاتے ہیں۔ہمارے یہاں نجی سکیٹر میں ذیابطیس کے علاج کے ضمن میں کئی رفاہی ادارے بھی کام کر رہے ہی،جو مرض سے متعلق عام فہم زبان میں تحریر کردہ کتابچے اور معلوماتی مضامین لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
جب کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مریضوں کو مرض سے متعلق آگہی فراہم کرنے کے لیے باقاعدہ ایک ٹیم تیار کی جائے، جو اُن کے رہن سہن کے مطابق ان کی رہنمائی کرے۔ مثلاً کن غذا ؤں کا استعمال مفید ثابت ہوگا، کون سی غذائیں نقصان دہ ہیں اور مرض پر کس طرح قابو رکھا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت پاکستان، ذیابطیس کے پھیلاؤ کے اعتبار سے دُنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور جس تیزی سے یہ عارضہ پھیل رہا ہے، حکومت، ذیا بطیس ایسوسی ایشنز اور دیگر اداروں کو ترجیحی بنیادوں پر ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنا ہوگا، تاکہ ہر سطح تک ذیابطیس کا علاج دستیاب ہوسکے۔ (مضمون نگار، کنسلٹنٹ ڈائی بیٹالوجسٹ ہیں اور ماڈرن کنسلٹنٹ کلینک، ڈیفینس، کراچی کے علاوہ احمد میڈیکل کمپلیکس، رفاہِ عام، فیڈرل بی ایریا اور الخدمت میڈیکل کمپلیکس، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں، نیز، کالج آف فیملی میڈیسن، پاکستان سے بطور رجسٹرار وابستہ ہیں)