• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدلتی دنیا کے رجحان،تمام ممالک کے 84 فیصد افراد سوشل میڈیا کے مخالف

پیرس /کراچی (نیوز ڈیسک) فرانس میں قائم ایک کثیر القومی ریسرچ اور کنسلٹنگ کمپنی ’’اپسوس‘‘ نے اپنے تازہ ترین سروے میں اُن باتوں کی نشاندہی کی ہے جو دنیا بھر میں مختلف اقدار کی تبدیلیوں کا سبب بن رہی ہیں۔ دنیا کے 25؍ ممالک میں کیے گئے تازہ ترین سروے میں امریکا، برطانیہ اور اٹلی سمیت ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ابھرتی ہوئی مارکیٹس جیسا کہ چین اور تھائی لینڈ جبکہ نئی اہم منڈیوں جیسا کہ کینیا اور نائیجیریا کے لوگوں سے بھی آراء حاصل کی گئی ہیں۔ کوروناوبا کی وجہ سے جہاں دنیا بھر میں سوچ کا زاویہ، رجحانات اور انداز تبدیل ہوا ہے وہاں سروے میں اُن تبدیل ہوتی اقدار اور رجحانات کا ذکر کیا گیا ہے جو قلیل مدتی وجوہات کے ساتھ طویل مدتی وجوہات کے باعث تبدیل ہو رہی ہیں۔ ان میں کورونا سے قبل کی صورتحال کا ذکر بھی شامل ہے تو کورونا کے بعد کے حالات کا بھی۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے تقریباً سبھی ممالک میں یکساں تشویش پائی جاتی ہے اور کورونا کی وجہ سے اس تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ 25؍ ممالک میں سے دو تہائی سمجھتے ہیں کہ ماحولیاتی نقصان کو بچانے کیلئے کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنا چاہئیں اور ان کی جانب سے یہ اقدام اُسی شدت کے ساتھ کرنا چاہئے جتنی شدت کے ساتھ یہ کمپنیاں ٹیکس بچانے کیلئے اپنے حقوق استعمال کرتی ہیں۔ چوتھائی ممالک کا کہنا ہے کہ ٹیکس کا معاملہ ماحولیات سے زیادہ اہم ہے۔ چین اور برازیل میں 80؍ فیصد سے زائد لوگ سمجھتے ہیں کہ ماحولیات اہم ہیں جبکہ برطانیہ اور ڈنمارک جیسے ممالک سمجھتے ہیں کہ ٹیکس زیادہ اہم معاملہ ہے، حالانکہ یہ ممالک بھی ماحولیات کو ترجیحی بنیاد پر دیکھتے ہیں۔ لوگوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ کمپنیاں آپس میں معاہدے کرکے ماحولیات کو بہتر کرنے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔ سروے میں دوسری اہم بات ہے کہ مشہور برانڈز کی اشیاء کی خریداری۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 25؍ مارکیٹس میں ہر دس میں سے سات مارکیٹس میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ذاتی اقدار کی عکاسی کرنے والے برانڈز کی خریداری ضروری ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نائیجیریا میں 91؍ فیصد، چین میں 86؍، کینیا اور فلپائن میں 85؍ فیصد جبکہ میکسیکو اور ڈنمارک میں 51؍ فیصد لوگ برانڈ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ برانڈز کو دیکھتے ہوئے لوگوں کا طرزِ خریداری 2013ء سے تبدیل ہوا ہے اور لوگ معروف برانڈز کو ترجیح زیادہ سے زیادہ دینے لگے ہیں۔ اسی طرح ایک اور رجحان بھی تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے جس میں کاروباری لیڈرز سماجی مسائل میں زیادہ سے زیادہ شمولیت اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں جس میں نائیجیریا، فلپائن، سنگاپور، بھارت، کینیا اور جنوبی افریقہ میں ہر دس میں سے آٹھ افراد اتفاق کرتے ہیں کہ کاروباری لیڈرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو درپیش سماجی و سیاسی مسائل پر بات کریں۔ حتیٰ کہ فرانس اور امریکا میں بھی جہاں اس بات پر اتفاق کی سطح کم نظر آئی، وہاں بھی تقریباً 51؍ فیصد افراد اس بات کو درست سمجھتے ہیں۔ سروے کے مطابق، ایک اور رجحان یہ تبدیل ہوا ہے کہ لوگوں کا سائنس پر بھروسہ بڑھ رہا ہے۔ 25؍ میں سے ہر 10؍ میں سے 6؍ ممالک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تقریباً تمام طبی بیماریوں کا علاج دریافت ہو جائے گا۔ سوچ میں یہ تبدیلی کورونا وبا کے دوران تیزی سے تبدیل ہوئی اور اس کی وجہ ویکسین کا ریکارڈ وقت میں تیار ہونا بتایا گیا ہے۔ سروے کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کے پرُ امید ہونے میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس کا اظہار تھائی لینڈ اور فلپائن کے 80؍ فیصد سے زائد لوگوں کا ’’سائنس تمام مسائل کا حل تلاش کر لے گی‘‘ کی اصطلاح پر بھروسہ کرنا ہے۔ ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سروے میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے تمام ممالک کے 84؍ فیصد افراد سوشل میڈیا کیخلاف ہیں اور اتفاق کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو زیادہ اختیارات اور طاقت دیدی گئی ہے۔ اگرچہ 2019 سے 2021 کے درمیان سوشل میڈیا کمپنیوں کی مخالفت میں اضافہ ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ مخالفت چین میں دیکھی گئی جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ سماجی رابطوں کی سائٹس کی طاقت میں متذکرہ عرصہ کے دوران 67 سے 83 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس پر تنقید کرنے والے لوگوں کی 84؍ فیصد تعداد اعداد و شمار کے غلط ہونے اور پرائیوسی کو پہنچنے والے نقصان سے بھی پریشان ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ ٹیکنالوجی بہتر ہونے اور اس کے پھیلائو کے نتیجے میں اُن کی پرائیوسی متاثر ہوگی۔
تازہ ترین