• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد سجاد رضوی۔۔۔ہیلی فیکس
شہیدِ ناموسِ رسالت علامہ محمد یوسف سلطانیؒ کو ہم سے جدا ہوئے تین سال مکمل ہونے کو ہیں،نومبر کا مہینہ یادوں اور دھیمے جذبوں کا سامان لئے وارد ہوتا ہے، ایسی ہستی کا ذکر جس کے شب و روز نورِ قرآن سے تاباں ہیں جس کی زندگی گلاب کے چہرے پر پڑنے والی شبنم سے زیادہ شفاف اور مشک و عنبر سے بڑھ کے معطر ہے، غیرتِ دینی کی حرارت سینے میں لئے ، ہر لمحہ غلبہ حق کےلئے کوشاں، فقر بوذر و سلمان سے آراستہ، جادہء عشق و محبت کا شناور اور راہِ شہادت کا مسافر خاص و عام کےلئے ایسا درس دے کر رخصت ہوا کہ دھرتی کا ذرہ ذرہ ان کے اخلاص، توکل ، صبر و تحمل اور استقامت کا شاہد ہے۔ ایسی شخصیت کہ جسے زمانہ نہیں سنوارتا بلکہ وہ زمانے کی دھار موڑنے اور سنوارنے کا گر دے کر بھیجے جاتے ہیں جن کے عزمِ مصمم کے سامنے پہاڑوں کے جگر کانپتے اور صحراؤں کی وسعتیں سمٹتی دکھائی دیتی ہیں، مہلو (تحصیل و ضلع گجرات ) کی ایک چھوٹی سی بستی میں پیدائش ہوئی،حلقۂ فیض میں آنکھ کھلی ، والدین بھی ایسے ملے کہ دنیا ان پر ناز کرے، زہد و تقویٰ کے نور سے سجے ، علم و فضل کی دولت سے مالا مال ، آہ سحر گاہی کے خوگر ، غریبوں فقیروں کے مددگار ، انسانیت کے حامی و غمگسار ، اجلے چہرے اور روشن سینے ، باوقار گفتگو، دلنشیں کلام اور حسنِ اعمال کی سعادتوں سے ہمکنار، آپ کے والد گرامی فیضِ ملت، علامہ فیض احمد چشتیؒ کا شمار اپنے وقت کے بہترین مدرسین و مبلغین میں ہوتا ہے، حضرت قبلہ نیک عالمؒ سے اکتسابِ علم کیا اور تربیت پائی، ظاہری علوم و فنون پر دسترس حاصل کرلی تو روحانی دنیا کے اسرار و رموز جاننے کی لگن نے آپؒ کو طریقت و معرفت کی باطنی شاہراہوں کا مسافر بنا دیا، بے شمار سفر پا پیادہ کئے اور بزرگوں سے ملاقات کرکے مطلوب پایا، وظائف کے ساتھ ساتھ طب و حکمت پر بھی گہری نظر تھی، اسی لئے جہاں آپ کے پاس تشنگانِ علم و فن کا جھمگٹا رہتا وہیں پر جسمانی و روحانی عوارض میں مبتلا بھی کثرت سے حاضر ہوتے، اس کے ساتھ تہجد ، صبح اور شام کے معین کردہ طویل معمولاتِ اورادوارو وظائف اور بلاناغہ عربی و فارسی کتب کا مطالعہ ہر دن کا حصہ تھا،شہیدِ ناموسِ رسالتؒ کی والدہ بھی قرب الہٰی کے اعزاز سے سرفراز ، خواتین کا مرجع تھیں، زبان میں حلاوت ، ہاتھ میں سخاوت اور شب و روز کی عبادت کے ساتھ ساتھ ان کی خاص بات محبت قرآنِ مجید ہے کہ جس کا ذکر ہر اس شخص کی زباں پر ہے جسے کچھ لمحے ان کے قریب گزارنے کا موقع ملا ہے، اس زمانے میں شبینے عام تھے، قریب کے دیہاتوں میں جب اسپیکر پر تلاوت ہوتی تو گرمیوں کی راتوں میں دور دور تک آواز پھیل جاتی ، ان کی قرآنی محبت اور کلام الہٰی سے اس قدر وارفتگی اور نسبت تھی کہ آپؓ حافظہ قرآن نہیں تھیں مگر جہاں کسی پڑھنے والے سے خطا ہوتی یا اشتباہ کا شکار ہوتا تو بے بے جی گھر میں بیٹھے بیٹھے بتا دیتیں کہ یہاں سے غلطی یا بھول ہوئی ہے اور پھر اگلی صبح یہی حافظ خدمت میں حاضر ہوتے تو انھیں آگاہ کرتیں کہ آپ نے رات تلاوت میں فلاں فلاں مقام سے کچھ حصہ چھوڑ دیا تھا یا نسیان کا شکار ہوئے، اس قدر ذوقِ قرآنی تھا کہ چند دنوں میں مکمل قرآن پاک کی تلاوت ہوتی اور سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہ پاتا، طلبہ اور مہمانوں کےلئے اپنے ہاتھ سے کھانا تیار کرنا اور گھر کے ساتھ ساتھ مدرسہ کی ضروریات کا خیال رکھنا آپ کی فراست، انتظامی امور پر مہارت اور دین کے ساتھ خصوصی محبت کی دلیل ہے، ایسے والدین کی گود میں تربیت پا کر حضرت علامہ محمد یوسف سلطانی شہیدؒ جوانی کی دہلیز تک پہنچے ، ابتدائی کتب اپنے والد گرامی ؒ سے پڑھیں اور درس نظامی کی تکمیل استاذ الاساتذہ ʼ شیخ الشیوخ ʼ ماہرِ علومِ عقلیہ و نقلیہ ʼ سلطان العلماء و الاولیاء حضرت علامہ سلطان احمد چشتیؒ حاصلانوالہ شریف (ضلع منڈی بہاوالدین ) کے پاس کی جب کہ دورۂ حدیث شریف حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے جامعہ فیصل آباد سے کیا۔ وہیں ایک مسجد میں امامت و خطابت کا سلسلہ بھی رہا اور آٹھ سے نو ماہ کے دوران وقت میں مکمل حفظِ قرآن کی سعادت پائی جو آپؓ کے کمال حافظے اور شوق کی دلیل ہے۔ والد کے حکم پر واپس اپنے گاؤں تشریف لے آئے تاکہ گھر کے معاملات اور دینی امور کا تسلسل قائم رکھا جا سکے لیکن رب تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا ʼ لکھنوال کی سرزمین شدید تشنگی کا اظہار کر رہی تھی بد مذہبوں کا زور تھا اور سماجی پسماندگی و خستہ حالی نیز اخلاقی گراوٹ متقاضی تھی کہ کوئی بندۂ مومن عشق و محبت کا چراغ روشن کرکے اندھیروں کو شکست دے اور صدائے ربانی سے اس زمین کو مرکزِ مہر و وفا بنائے۔ لکھنوال کے شرفاء کے پیہم اصرار پر حضرت کے والد گرامی ؒ نے اجازت دی اور اپنے استاذ گرامی (حاصلانوالہ شریف ) کے خصوصی اذن اور دعا کے ساتھ لکھنوال میں ڈیرہ جمایا۔ تقریباً 40 سال مسلسل یہاں دین کی ترویج کا سلسلہ رہا، دن اور رات ایک ہوئے، راتوں کی تاریکیاں اور گرم دنوں کی تمازتیں اس مرد آہن کے عزم و ارادہ کو متزلزل نہ کر سکیں، غموم و ہموم کے طوفان اور مخالفت و عناد کی آندھیاں سر پٹخ کے رہ گئیں مگر اس تن تنہا ، مرد حق نے علم و دانش اور فیض و حکمت کا وہ چراغ روشن کیا کہ اپنے بیگانے سب معترف ہوئے، گھر گھر میں حافظ قرآن بچے اور بچیاں، لکھنوال خورد اور کلاں جن کے درمیان صرف سڑک ہے دو بہت بڑے گاؤں ہیں ہزاروں نفوس پر مشتمل کثیر گھرانوں پہ محیط علاقہ مگر کوئی گھر ایسا نہیں جہاں حضرتؒ کا شاگرد نہ ہو، جامعہ غوثیہ رضویہ اور جامعہ ام الخیر و جامع مسجد کا قیام ʼ عمارتوں کا عمدہ انتظام و انصرام اور ان جامعات سے منسلک بیسیوں شاخوں کی نگرانی ، اس کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی گاؤں میں ایک عظیم الشان جامعہ قائم کرنا اور اسے نتیجہ خیز بنانا ʼ سوائے فضلِ خاص کے اور کیا کہا جا سکتا ہے، حضرت اپنے طلبہ کو ابتدائی کتابیں پڑھا کے ʼ اکثر جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور بھیج دیتے ، یہی وجہ ہے کہ ان جامعات سے فارغ بے شمار حضرات و خواتین جگہ جگہ علم کا نور پھیلانے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ 23 نومبر 2018 کو تحریک ناموس رسالت کے سلسلے میں آپ کو اپنے جامعہ سے گرفتار کیا گیاʼ سخت سردیوں میں 10 دن آپ دیگر ساتھیوں کے ساتھ حافظ آباد جیل میں پامردی اور استقامت سے ٹھہرے رہے، رات کو جیل ہی میں سینے پہ تکلیف محسوس ہوئی تو ملحق چھوٹے سے کمرے میں جہاں دیگر مریضوں کو رکھا گیا تھا ʼ آپ بغیر علاج کروائے ، کلمۂ شہادت کی گونج میں اپنے محبوب ﷺ سے ملاقات کےلئے حاضر ہو گئے۔ 3 دسمبر 2018 کو آپ کی شہادت ہوئی اور اگلے دن آپ اپنے آبائی گاوں مہلو میں اپنے والدین کریمین کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئے۔
تازہ ترین