• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میرا بچہ تو ڈاکٹر بنے گا۔ میں اپنے بیٹے کو انجینئر بناؤں گی ۔‘‘ ایک وقت تھا جب کم و پیش ہر ماں باپ کی یہی خواہش ہوتی تھی ، ڈاکٹر ،انجینئر کے سوا کچھ اور سوچتے ہی نہیں تھے لیکن اب وہ دور نہیں رہا جب صرف ڈاکٹر اور انجینئرنگ کی تعلیم کو اہمیت دی جاتی تھی۔ بدلتے دور کے ساتھ وقت کے تقاضے بھی بدل گئے ہیں۔ اب نوجوان ہر شعبے میں قدم بھی رکھ رہے ہیں اور اُن میں آگے بڑھ رہے ہیں خواہ وہ کمپیوٹر سائنس کی تعلیم ہو۔ اب تو انٹر نیٹ میں دن بہ دن نت نئی ایپلی کیشن اور سوفٹ وئیر کا اضافہ ہو رہا ہے، جس کے باعث نسل نو نہ صرف ان سے منسلک شعبہ جات میں قسمت آزما رہی ہے بلکہ کام یاب بھی ہو رہی ہے ۔ ایسا ہی ایک شعبہ’’وی-لاگنگ‘‘ ہے۔

دراصل بلاگنگ اس وقت انٹرنیٹ کی اہم اور مقبول ترین سرگرمی شمار کی جارہی ہے، چاہے وہ تحریر کی صورت میں ہو یا ویڈیو کی۔2003ء میں گوگل کی جانب سے بلاگنگ کا آغاز کیا گیا اور یہ سلسلہ اب فوٹو بلا گنگ ، اسکیچ ، ویڈیو ، میوزک اورآڈیو (پوڈ کاسٹ) بلاگنگ کے دائرہ تک وسیع ہوچکا ہے، تاہم ان دنوں سوشل میڈیا پربلاگنگ کی ان تمام تر اقسام میں سے ویڈیو بلاگنگ (وی لاگنگ) کا راج زیادہ نظر آتا ہے۔

2003 میں گوگل نے ان افراد کے لیے بلاگنگ کا آغاز کیا جو لکھنا چاہتے تھے، اپنے خیالات دوسروں تک پہچانا چاہتے تھے، لیکن انہیں کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں تھا یا پھر ان کے پاس اتنی سہولیتں نہیں تھیں کہ وہ اپنا مضمون کسی اخبار، میگزین یا کتابی شکل میں شائع کروا سکیں۔ ایسے افراد نے ’’بلاگر ڈاٹ کام‘‘ سے خوب استفادہ کیا۔ بلاگ کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے گوگل نے بلاگ میں وڈیو کا آپشن متعارف کروا کر ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکا مچا دیا۔

اب تک جو کچھ لکھ کر قارئین کے ساتھ شئیر کیا جاتا رہا تھا, وہی سب اس سہولت کے بعد وڈیو کے ذریعے شئیر کیا جانے لگا۔ ان وڈیوز کو’’وڈیو لاگ" یعنی ’’وی-لاگ’’ کا نام دیا گیا۔ اس پر کوئی قدغن نہیں، کوئی پابندی یا اعتراض نہیں جیسا چاہئیں بولیں، ویڈیو بنائیں اور پھر اسے اپ لوڈ کردیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ملکی سطح پر سیر و سیاحت کو فروغ ملا، معلومات کا تبادلہ تیزی سے بڑھا۔ گاؤں دیہات کے درمیان جو خلا تھا وہ بڑی آسانی سے کم ہوگیا۔

آج کل نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ویڈیو بلاگنگ میں مصروف نظر آ تی ہے، کیوں کہ یہ نہ صرف پیسے کمانے کا آسان اور شارٹ کٹ راستہ ہے، بلکہ شہرت حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔ خصوصاََیہ اُن نوجوانوں کے شوق کو پورا کرتا دکھائی دیا جو اداکاری کے شعبے میں نام کمانا چاہتے تھے۔ آج کے دور میں لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ یا پھر اسمارٹ موبائل فون تو ہر ایک کے پاس ہوتا ہے، لیکن اگر آپ وی لاگر بننا چاہتے ہیں تو اپنے ارد گرد کوئی بھی دلچسپ واقعہ رونما ہوتا دیکھیں تو فوراً اسے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیں، پھر اپنا تجزیہ و تبصرہ دیں اور وڈیو کو اپنے فیس بک یا یوٹیوب اکاونٹ سے دیگر افراد کے ساتھ شئیر کریں، یا پھر آپ میں کوئی ہنر ہے تو اس کی وڈیو بنا کر اپنے چینل پر اپ لوڈ کردیں۔ اگر آپ کے چینل کے دس لاکھ سبسکرائبر ہوجائیں تو یوٹیوب آپ کو گولڈن بٹن بطور انعام دیتا ہے، صرف یہ ہی نہیں بلکہ وڈیو کے سبب حاصل ہونے والے پیسوں کا پچپن فیصد حصہ آپ کو دیا جاتا ہے۔

ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے کے لئے چینی ویڈیو پلیٹ فارمز پر پاکستانی وی بلاگرز بے حد مقبول ہیں۔ گذشتہ چند سال میں وِلاگنگ مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔بیوٹی و ی لا گرز اور ٹاپ فیشن وی لاگرز سے لے کر وی لاگنگ اسٹارز تک جو صرف اپنی دلچسپ اور متاثر کن کہانیاں سنانے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ ان میں کچھ پاکستانی نوجوان وی بلا گرزکو چین کے معروف ویڈیو پلیٹ فارمز پربہترین پذیرائی مل رہی ہے۔

ایک پاکستانی نوجوان، محمد ابوبکر نے باہمی افہام و تفہیم کو بڑھانے کے لئے چین میں رہتے ہوئے ویڈیو بنانے کا فیصلہ کیا، اُس نے چین سے پاکستان کی سرحد خنجراب پاس سے گوادر تک روڈ ٹرپ کے بارے میں ویڈیو بنائی ،اس خطے کے خوبصورت مناظر اور انوکھے جانوروں نے بہت سارے چینی ناظرین کو اپنی طرف راغب کیا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان یونس غزالی چین کی یونان نارمل یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔اس نوجوان نے ویڈیوز بنائیں،جن میں پاکستانی ثقافت ، روایت ، سیاحت اور خوراک ، چین پاکستان تعلقات ، چینی قدرتی مقامات اور تاریخی مقامات کا دورہ وغیرہ شامل ہیں۔

یوٹیوب اپنا پلیٹ فارم استعمال کرنے والے ویڈیو میکرز کی خدمات اور کارکردگی کے اعتراف میں انہیں مختلف سہولتیں اور اعزازات مہیا کرتا ہے۔گولڈ پلے بٹن بھی ایسا ہی ایک اعزاز ہے جو دس لاکھ سے زائد سبسکرائبرز رکھنے والے یوٹیوب چینلز کو دیا جاتا ہے۔پلے بٹن پر چینل کا نام بھی کندہ ہوتا ہے۔

ڈائمنڈ پلے بٹن ان چینلز کو دیا جاتا ہے جن کے سبسکرائبرز کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر جائے۔ مارچ 2019 تک یوٹیوب کی جانب سے صرف 374 چینلز کو ڈائمنڈ پلے بٹن اعزاز دیا گیا ہے۔ ایک ہزار سے کم سبسکرائبرز رکھنے والے چینل کو گریفائٹ جب کہ ایک ہزار صارف پورا ہونے پر اوپل کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس مرحلہ کو پہنچنے والے یوٹیوب چینلز یوٹیوب پاٹنر پروگرام کا حصہ بن کر اپنی ویڈیوز کے ذریعے آمدن بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ دس ہزار سبسکرائبرز رکھنے والے یوٹیوب چینلز کو برونز درجہ دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی متعدد یوٹیوبرز کو ویڈیو پلیٹ فارم کی جانب سے گولڈ پلے بٹن سے نوازا گیا ہے۔آمنہ پہلی پاکستانی نوجوان ہیں جنہیں یوٹیوب کی جانب سے ان کے چینل ’کچن ود آمنہ‘ کے لیے گولڈن پلے بٹن دیا گیا تھا۔وی لاگر بننے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں، چاہے آپ نو عمر ہوں یا ادھیڑ ، بس وڈیو کا مواد دلچسپ، معلوماتی، سبق آموز ہونا چاہئے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر اوقات بعض وڈیوز غیر ارادی طور پر وائرل ہوجاتی ہیں۔ مثلاً’’ اوئے۔۔۔پیچھے تو دیکھو‘‘سے مقبولیت حاصل کرنے والا بچہ پاکستان کا کم عمر یوٹیوبر بن گیا۔اعزاز بھی سمیٹ لیے۔ 19سالہ دنانیر مبین نامی ایک لڑکی وڈیو جس میں اس نے اپنے ہاتھ میں موبائل پکڑ رکھا ہے جو پہلے اپنے پیچھے کھڑی ایک گاڑی دکھاتی ہے، پھر اپنے چند دوست دکھاتی ہے اور ساتھ ساتھ ہی کہتی ہے،’’یہ ہماری کار ہے، یہ ہم ہیں اور یہ ہماری پاری (یعنی پارٹی) ہو رہی ہے‘۔

اپنے دوستوں کے ساتھ بنائی گئی محض چارسیکنڈ کی یہ عام سی ویڈیو اتنی وائرل ہو گئی کہ ناصرف انٹرنیٹ پر ہر دوسرے شخص نے ان کے میمز بنا ڈالیں بلکہ یہ سرحد پاربھی جا پہنچی۔ وہ خود کو ایک ’کونٹینٹ کریئٹر‘ کہتی ہیں جو اپنے بلاگز پر زندگی کے بارے میں شئیر کرنے کے علاوہ میک اپ فیشن اور لائف اسٹائل سے لے کر ذہنی صحت کے مسائل سے متعلق ہر چیز پر بات کرتی ہیں۔

نوجوان اگروی لاگ کے ذریعے پیسے کمانا چاہتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی وڈیو کوئی اور ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے چینل پر اپ لوڈ نہ کرے، وڈیو کا مواد بھی بالکل نیا ہو، ساتھ ہی آپ کےچینل کی وڈیو کم سے کم ہزار بار دیکھی جائے، اگر یہ تعداد ایک ہزار سے تجاویز کرگئی ہے تو یہ آپ کے لیے اچھی خبر ہے، کیوں کہ وڈیو جتنی بار دیکھی اور شئیر کی جائے گی، اتنی ہی بار آپ کو اس کے پیسے ملیں گےجو کم سے کم اٹھارہ ڈالر سے شروع ہوتے ہیں۔ نیز سبسکرائبرز بڑھانے کی کوشش جاری رکھیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال معاشی اور سماجی ناانصافی سے متاثر نوجوانوں کو سامنے لا رہا ہے۔

نوجوان نسل ویڈیو بلاگ کے ذریعے اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کررہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دس لاکھ ویورز سے 100 ڈالرز سے ہزار ڈالرز تک کمائے جا سکتے ہیں اور یہ کمائی ایک بار نہیں ہوتی کیوں کہ لوگ سالوں ان ویڈیوز کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ویڈیو بلاگ کی تیاری کے لئے لائٹنگ، آڈیو اور ایڈیٹنگ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

آسان الفاظ کا استعمال کریں۔ ٹیکنالوجی کی ایجادات سے علمی ، مالیاتی، معاشی ، سماجی ، روایتی ترقی کے نئے ابواب میں اضافہ ہوا ہے۔ وی لاگینگ کے مثبت پہلو کے ساتھ منفی پہلو بھی ہیں، جن پر قابو پانا بے حد ضروری ہے۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ سبسکرائبرز اور ناظرین بنانے کی دوڑ میں کئی وی لاگر غیر اخلاقی حرکات کر گزرتے ہیں، یا نامناسب مواد اپنے چینل پر شئیر کرتے ہیں۔ جس سے فالوورز تو بڑھ جاتے ہیں لیکن ساکھ خراب ہوجاتی ہے۔

وی لاگینگ ایک ذمہ دارانہ عمل ہے کیوں کہ یہ نسل نو کی سوچ و عمل پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین