سندھ میں پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور پولیس اہل کاروں کے مسائل کے حل، نفری کی کمی، نفری بڑھانے، تھانوں کی اپ گریڈیشن، پولیس اہل کاروں اور کمانڈوز کو ضرورت کے مطابق جدید اسلحے سمیت ضروری آلات کی فراہمی،اسٹریٹ کرائم معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ضروری،سندھ کے تمام تھانوں کو ملک بھر کے تھانوں سے منسلک کرنے سمیت تمام پولیس دفاتر ایس ایس پی سے آئی جی سندھ کے دفتر تک پولیس کے نظام کو مکمل کمپیوٹرائز کرنے، سندھ کے تمام اضلاع میں یونی فارم، گودام ، اسلحہ ڈیپو، روزمرہ کی کارکردگی اور پولیس کی اپ گریڈیشن سندھ پولیس کو مثالی پولیس بنانے کے لیے آئی جی سندھ پولیس مشتاق احمد مہر نے قدم بڑھا دیے ہیں، پولیس اہل کار اب کہیں پُرانی یونی فارم میں دکھائی نہ دیں، سال میں دو بار مکمل یونی فارم تمام اضلاع کو پولیس اہل کاروں کے لیے آئی جی آفس سے فراہم کی جاتی ہے، اگر وہ سپاہی تک نہیں پہنچتی تو کیوں؟ کیا یونی فارم کے گودام بھرے ہوئے ہیں اگر نہیں ہیں تو کہاں ہیں، آئی جی سندھ کا افسران سے سوال؟
امن و امان کی صورت حال معاشرتی برائیوں اور جرائم کے خاتمے کے حوالے سے کارکردگی، اسلحہ ڈپو کی پوزیشن خاص طور پر پولیس اہل کاروں کے لیے قائم یونی فارم گودام کےمتعدد پولیس میں اہلکاروں کو یونی فارم نہ ملنے کی شکایات، اور پولیس اہل کاروں کے پُرانی یونی فارم میں نظر آنے، سمیت دیگر امور پر آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے آئی جی آفس سے وڈیو لنک اجلاس منعقد کیا۔
اجلاس میں سکھر سمیت تمام ڈویژن کے ڈی آئی جی ایس ایس پیز سیمت دیگر بالا افسران نے شرکت کی۔ پولیس کے ایک سینئر افسر کے مطابق اجلاس میں آئی جی سندھ مشتاق مہر نے تمام پولیس افسران کو کارگردگی کو مزید بہتر بنانے، پولیس اہل کاروں کے مسائل کے حل ، پولیس کے پاس موجود اسلحے کی تفصیلات، پولیس یونیفارم، اورتھانوں کی عمارتوں سمیت دیگر ضروریات اور ماڈل پولیس اسٹیشن کے قیام ، تھانوں کی تنزین و آرائش، سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا اور صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں پولیس کے نظام کو مکمل طور پر کمپیوٹرائز کیے جانے، جو اہم شعبے کمپیوٹرائز ہیں، لیکن ان کی کارگردگی تسلی بخشں نہیں یا وہ غیر فعال ہیں، انہیں بہتر بنانے اور سندھ پولیس کو عوام دوست پولسنگ بنانے پر زور دیا گیا۔
اجلاس میں آئی جی سندھ نے کہا کہ میری اولین ترجیح سندھ میں مکمل امن و امان کی بحالی، ڈاکو راج کا خاتمہ، اسٹریٹ کرائم کی روک تھام، منشیات معاشرتی برائیوں کی سرکوبی اور خاص طور پر پولیس اہل کاروں کے مسائل کو حل کرنا ہے، اگر پولیس والا خود ہی مسائل سے دوچار ہوگا توادارے کی کار کردگی کیسے بہتر ہوسکتی ہے۔ سندھ پولیس کسی صوبے کی پولیس سے کم نہیں ہے۔ سندھ پولیس کے افسران اور جوانوں کی پیشہ ورانہ خدمات قابل تحسین ہیں، دہشت گردی کا خاتمہ ہو یا ڈاکووں کا قلع قمع ہو، سندھ پولیس کے افسران اور جوانوں نے بہادری کے ساتھ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جو ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ نے پولیس افسران سے پوچھا کہ بتائیں 2018 میں پولیس اہل کاروں کو مکمل یونی فارم سال میں دو بار دینے کا کمپیوٹرائز نظام بنایا گیا تھا، یہ نظام فعال کیوں نہیں ہے۔ آئی جی آفس سے تمام اضلاع کے پولیس اہل کاروں کے لیے مکمل یونی فارم اور دیگر سامان باقاعدگی سے تمام اضلاع کو بھجوایا جاتا ہے۔
پھر بھی سندھ کے متعدد اضلاع میں یہ شکایات عام ہیں کہ پولیس والے بڑی تعداد میں پُرانی یونی فارم پہنے ڈیوٹی کرتے دکھائی دیتے ہیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے، اگر یونی فارم کے گودام بھرے ہیں تو کیوں بھرے ہیں اور اگر پولیس والے نئے یونی فارم ملنے کے باوجود پرانے استعمال کررہے ہیں تو کیوں؟ انہیں چیک کرنا کس کی ذمے داری ہے، اس طرز عمل سے پولیس کا عوام پر درست تاثر نہیں جاتا، کسی کو خیال نہیں، حالاں کہ یونیفارم کی تقسیم کے حوالے سے کمپیوٹرز سسٹم آر ایم ایس ریسورس مینجمنٹ کمپیوٹرائز 4 سال قبل بنایا گیا تھا۔ یہ نظام کس مقصد کے لیےبنایا گیا تھا۔
یہ کام کیوں نہیں کررہا ہے، بعض اضلاع میں کئی سال سے پولیس اہل کاروں کو یونی فارم نہ ملنے کی شکایات بھی ملی ہیں، جو ناقابل برداشت ہے، سال میں دو مرتبہ پولیس اہل کاروں کے لیے مکمل یونی فارم جس میں جوتے کیپ ربن جرابیں، جیکٹس، جرسیاں، پولو اسٹیک، بیججز آئی جی آفس سے بجھوائے جاتے ہیں، لیکن متعدد اضلاع میں مکمل طور پر پولیس اہل کاروں کو نہیں مل رہے ہیں، آئی جی سندھ نے افسران کو سختی سے ہدایات دیں کہ تمام اضلاع کے ریکارڈ خاص طور پر پولیس یونی فارم اور اسلحہ خانے کے حوالے سے ایک ماہ میں کمپوٹرائز ریکارڈ کی تمام تر تفصیلات آئی جی آفس کو فراہم کی جائیں، اور بنے ہوئے سسٹم خراب ہونے کے بجائے انہیں بہتر بنانے کی ضرورت ہے، جب یہ سسٹم ٹھیک کام کرے گا ، تو پتہ چلے گا کہ کیا ہورہا ہے، تمام اضلاع میں سسٹم دُرست کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ نے اجلاس میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ متعدد اضلاع سے شکایات ہیں کہ پولیس اہل کاروں کو 2018 سے یونی فارم نہیں ملیں، وہ اسٹاک اگر ہے تو کہاں ہے اور اگر نہیں ہے تو ذمے دار کون ہے؟حالاں کہ یہ سسٹم ایسا بنایا گیا ہے کہ کسی بھی اہل کار کو دو سے زیادہ یونیفارم دینے کی انٹری کمپیوٹر میں نہیں ہوسکے گی۔ لیکن سسٹم ہی اگر غیر فعال ہے تو پتہ کیسے چلے گا، فوری طور پر اس نظام کو فعال بنایا جائے، اجلاس میں تمام اضلاع میں پولیس کو ملنے والے ٹیئر گیس کے شیل اور مشینوں کی تفصیلات بھی طلب کی گئیں ہیں کہ ایک ماہ میں تمام تفصیلات آئی جی آفس کو فراہم کی جائیں، اور آر ایم ایس ریسورس مینجمنٹ سسٹم تمام اضلاع میں مکمل طور پر فعال ہونا چاہیے۔
پولیس اہل کاروں کو یونی فارم، جیکٹ، جرسی، کیپ، بیج، پولو اسٹیک جیکٹس پولو اسٹیک آنسوگیس کی گنز اور شیل کتنا پڑا تھا، کتنا موجود ہے اور کتنا استعمال ہوا، اس کی ایک ماہ میں تقسیم اور ریکارڈ فراہم کریں۔ آئی جی سندھ مشاق احمد مہر نے تمام افسران پر واضح کیا کہ وہ اس حوالے سے خصوصی ٹیمیں تشکیل دیں گے، جس طرح معاشرتی برائیوں کے خلاف ٹیمیں بنائی گئی ہیں، اس طرح کی ٹیمیں بنائی جائیں گی، جس کا سربراہ کسی بھی ضلع کا ایس ایس پی سطح کا افسر ہوگا، جو کسی دوسرے ڈسٹرکٹ میں اچانک پہنچ کر ریکارڈ چیک کریں گے اور جہاں بھی ریکارڈ میں گڑبڑ ہوئی تو متعلقہ ذمے داران کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اجلاس میں آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے پولیس افسران اور معاشرتی برائیوں، گٹکا، ماوا کی تیاری خرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف جاری کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایات بھی دیں، ذرائع کے مطابق اجلاس میں آئی جی سندھ نے ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہرنواز شیخ؛ ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ، ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو، ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں کی جانب سے کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان افسران کی آپریشنل ضروریات پر بات اور آپریشن تیز کرنے کے احکامات دیے۔
دوسری جانب اجلاس کے بعد اکثریتی اضلاع جن کے ریکارڈ مرتب نہیں ہیں یا درست نہیں ہیں، ان میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ خاص طور گودام انچارج دن اپنا ریکارڈ مرتب کرنے میں مصروف ہیں، تاکہ کسی بھی ممکنہ کارروائی سے بچا جاسکے۔ ایک سینئر پولیس آفیسر نے بتایا کہ ایک پولیس اہل کار کے مکمل یونی فارم پر سالانہ 40 سے 50 ہزار روپے کے اخراجات آتے ہوں گے، کیوں کہ ایک یونیفارم 20 سے 25 ہزار تک کا ہوتا ہے، اس کے باوجود متعدد اضلاع میں پولیس اہل کار پرانی یونی فارم کے ساتھ ڈیوٹی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کی جانب سے اس اہم ایشو پر توجہ دینے اور باقاعدہ اس کی تقسیم کے طریقہ کار کو چیک کرنے سے پولیس فورس پر مثبت اثرات پڑیں گے۔
یقینی طور پر 6 ماہ میں نئی یونی فارم کے سندھ بھر میں مکمل استعمال سے پولیس کا امیج بہتر ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر مکمل عمل درآمد کب تک ممکن ہوسکے گا۔ یونی فارم کی تقسیم اور چیکنگ کے نظام کو فعال بنانے اور پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے جو اقدامات کیے ہیں ،وہ قابل تحسین ہیں اس سے پولیس کا مورال بلند ہوگا، شہری حلقوں نے آئی جی سندھ کی جانب سے معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے بہترین پولیس افسران پر مشتمل چھاپہ مار ٹیموں کی خدمات کو بھی سراہتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ سندھ پولیس کی کارکردگی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری آئے گی۔
ان حلقوں نے مطالبہ کیا کہ ہماری نوجوان نسل ہمارے مستقبل کو معاشرتی برائیوں کی جانب دھکیلنے والے اور اس گھناونے دھندے میں ملوث عناصر اور ان کے سرپرست پولیس افسران و اہل کاروں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے اور کالی بھیڑوں کو پولیس کے محکمے سے فارغ کیا جائے۔