وڈیروں ،جاگیرداروں اور دیگر بااثر افراد کی جانب سے عام شہریوں کی تذلیل کرنا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانا کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ ملک کے ہر صوبے میں ایسے با اثر افراد موجود ہیں جو ’’ سسٹم ‘‘ کے ساتھ چلتے ہیں اور ان کی جانب سے آئے روز غریب اور معصوم شہریوں پر ظلم اور تشدد کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ کراچی میں بھی با اثر افراد نے صرف ایک ویڈیو بنانے پر نوجوان کی جان لے لی، تلور کے شکار سے روکنے اور غیرقانونی شکار پر آئے لوگوں کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنے پر نوجوان کو قتل کر دیا گیا۔
رکن سندھ اسمبلی کے مہمانوں کو شکار سے منع کرنے پر ملیر کے نوجوان کو قتل کر دیا گیا، مقتول کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ غیرملکی مہمانوں کے شکار کی ویڈیو سوشل میڈیا پر منظر عام پرآنے کے بعد ناظم جوکھیو کو ایم پی اے جام اویس نے ملیر میں اپنے گھر بلایا اور بات چیت کے دوران ناظم جوکھیو کو تشدد کر کے قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق ملیر میمن گوٹھ کےقریب سے ایک شخص کی لاش ملی، جس کی شناخت ناظم جوکھیو کے نام سےہوئی ہے۔ ناظم جوکھیو نے رِکن اسمبلی جام اویس گہرام کے غیر ملکی مہمانوں کو شکار سے منع کیا تھا ، پولیس نے مقتول کے بھائی کی مدعیت میں قتل کی دفعات کے تحت واقعہ کا مقد مہ درج کیا ہے۔
پولیس کے مطابق جام ہاؤس میں جھگڑےکےدوران لاٹھی اورگھونسوں سے 35 سالہ ناظم ولد سجاول جوکھیو کی ہلاکت ہوئی۔ مقتول کے بھائی افضل جوکھیو نےا لزام عائد کیا ہے کہ میرے بھائی ناظم جوکھیو کو رکن صوبائی اسمبلی جام اویس نےقتل کیا۔ انھوں نے کہا کہ مقتول ناظم نے غیر ملکیوں کو گائوں میں شکار سے روکا اور ویڈیو بنا لی، جس کے بعد سر دارجام عبدالکریم نےبھائی کوجام ہاوس لانےکا حکم دیا۔ ناظم کےبھائی نےکہا ہے کہ جب کچھ دیر بعد میں جام ہاؤس گیا تو بتایا گیا کہ تمہارا بھائی مرگیا ہے۔
جام اویس ٹھٹھہ سےرکن سندھ اسمبلی،اور ان کے بھائی جام عبدالکریم ملیر سے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ مقتول نوجوان ناظم جوکھیو کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے نیشنل ہائی وے پر کئی گھنٹے دھرنا بھی دیا، جس کے باعث نیشنل ہائی وے پر ٹریفک معطل ہو گیا۔ مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی اس پر بد ترین تشدد کی تصدیق کی گئی ہے۔
ناظم جوکھیو کے قتل کے بعد پوری طرح یہ کوشش کی گئی کہ اسے ’’لو پروفائل‘‘ میں ہی رکھا جائے اور اس کیس کا میڈیا کو پتہ نہ چلے ، لیکن مقتول کے بھائی کا بیان جب سوشل میڈیا پر چلا تو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر ’’جسٹس فار ناظم ‘‘ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا، جس پر سندھ حکومت اور پولیس افسران کی آنکھیں کھلیں اور ان کے لیے اس پر ایکشن لینا مجبوری بن گیا۔
مقتول ناظم جوکھیو کے بھائی اور مقدمہ کے مدعی افضل احمد جوکھیو کے مطابق گزشتہ دنوں سردار جام اویس کے مہمان عرب شکاری ہمارے گاؤں کے قریب تلور کا شکار کرنے آئے تھے، جہاں میرے بھائی ناظم نے ان کی ویڈیو بنا کر وائرل کر دی، جس پر عرب شکاریوں نے میرے بھائی سے بد تمیزی کی۔
موبائل فون چھیننے کے بعد تشدد کیا اور پھر موبائل فون واپس دے دیا۔افضل جوکھیو کے مطابق اس کے بعد سردار جام عبدالکریم کا پرسنل سیکریٹری میرے گھر آیا اور میرے بھائی ناظم کو اپنے ساتھ جام ہائوس لے گیا،جب ہم وہاں پہنچے تو ناظم کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ہم نے انھیں تشدد سے روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ تم لوگ واپس گھر جائو صبح شکاریوں کو بلوا کر بات کرنے کے بعد تمہارے بھائی کو چھوڑ دیں گے ، جس کے بعد ہم واپس گھر چلے گئے۔ رات گئے مجھے فون کر کے بتایا گیا کہ تمہارا بھائی مر گیا ہے، جس کے بعد ہم جام ہائوس پہنچے، جہاں ہمیں اندر جانے سے منع کر دیا گیا،اس کے بعد ہم اسٹیل ٹائون اور میمن گوٹھ تھانے گئے، لیکن پولیس نے ہماری ایک نہ سنی۔
بعد ازاں قتل کے مقدمے میں نامزد پیپلز پارٹی کے ایم پی اے جام اویس گہرام نے گرفتاری دے دی،پولیس کے مطابق ایم پی اے جام اویس گہرام نے رضاکارانہ طور پر گرفتاری پیش کی۔ ڈی آئی جی ایسٹ نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کی سربراہی میں 8 رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم ترتیب دی ہے، جو کہ کیس کے حتمی ہونے تک مستقل بنیادوں پر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ انویسٹی گیشن کمیٹی کی تفتیش جاری ہے۔ پولیس کے مطابق 7 نومبر کو ناظم جوکھیو کے بھائی اور اہل خانہ کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ہیں،ناظم جھوکیو کے اہلخانہ نے جام کریم سمیت مزید افراد کے نام بیانات میں دیے ہیں۔
گرفتار ایم پی اے جام اویس کے ڈیرے سے سی ٹی وی ڈی وی آر بھی تحویل میں لیا گیا ہے، ڈی وی آر کو فوٹیجز نکالنے کے لیے فارنسک کے لیے بھیجا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق کیس میں گرفتار دو ملزمان ناظم جھوکیو کے قتل کا اعتراف کر چکے ہیں، اعتراف جُرم کرنے والوں میں میر علی اور حیدر شامل ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کے بیانات کو ثبوت کے ساتھ ثابت کرنا بھی ضروری ہے۔
ذرائع کے مطابق ملزمان کے تفتیش میں دیے گئے بیان کی قانونی حیثیت نہیں، کیوں کہ اکثر ملزمان عدالت میں بیانات سے مکر جاتے ہیں۔ پولیس نے کیس میں اغوا کی دفعہ 365 بھی شامل کر لی ہے اور مزید تین ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، پولیس نے ایم این اے جام عبدالکریم کو بھی ملزمان میں شامل کرلیا ہے، گرفتار جام اویس سمیت تین ملزمان پولیس ریمانڈ پر ہیں ، تفتیشی افسر کے مطابق واقعہ میں جام عبدالکریم سمیت مزید 16 افراد کو نامزد کیا گیا ہے، جن میں 5 ملزمان نامعلوم ہیں، واقعہ کا مقدمہ قتل کی دفعہ کے تحت درج تھا۔ مقتول ناظم جوکھیو کا موبائل فون بھی اب تک نہیں مل سکا ہے۔
دوسری جانب کیس میں وائلڈ لائف کے افسروں کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔ تلور کے شکار پر غیر ملکیوں کے ساتھ وائلڈ لائف کاعملہ موجود تھا، تفتیشی حکام کے مطابق وائلڈ لائف کے عملے سے جھگڑے کی نوعیت اور وجہ کا تعین کیا جائے گا۔ کراچی پولیس چیف عمران یعقوب منہاس کا کہنا ہے کہ ناظم جوکھیو کیس کی تفتیش میرٹ پر کی جارہی ہے۔ پولیس نے اس کیس میں مزید تین ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گرفتار رکن سندھ اسمبلی کو وی آئی پی پروٹوکول دیے جانے کا تاثر غلط ہے،جام اویس کو تھانے کے لاک اپ میں عام ملزم کی طرح رکھا گیا ہے۔
ناظم جوکھیو قتل کا مقدمہ اہل خانہ کی خواہش کے مطابق ہی درج کیا گیا۔ ملزم جام اویس کو تھانے کے لاک اپ میں رکھا گیا ہے اورتفتیش میرٹ پر کی جارہی ہے،کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ناظم قتل کیس میں مزید تین ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں عبدالرزاق ، جمال واحد اور معراج شامل ہیں، جب کہ اس سے قبل جام اویس اور دو گارڈز کو پہلے ہی گرفتارکیا گیا تھا۔
انھوں نے ایک سوال کے جواب میں مزید بتایا کہ عدالت میں دوران پیشی ملزم جام اویس کو ہتھکڑی نہ لگانے پر افسر کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کی جارہی ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مقدمہ میں تفتیشی افسر کی جانب سے مزید ناموں کا اندراج کر کے کیس کو کمزور کیا جا رہا ہے،دیکھنا یہ ہے کہ پولیس اس بار حکومت میں شامل بااثر افراد کو سزا دلوانے میں کام یاب ہوتی ہے یا پھر حسب روایت بااثر افراد کے ملازمین میں سے کسی کو قربانی کا بکرا بنا کر کیس کو ختم کرتی ہے۔
سندھ کے محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق رواں سیزن میں جن غیر ملکیوں کو شکار کا پرمٹ جاری کیا گیا، وہ تاحال پاکستان نہیں آئے ہیں۔ حکام کے مطابق ہر عرب شہری پر لازم ہے کہ وہ اپنی آمد سے قبل وزارت خارجہ کو متعلقہ ایمبیسی کے ذریعے کم از کم ایک ہفتہ پہلے آگاہ کرے۔