5اکتوبر اساتذہ کے عالمی دن کے طور پر منایا گیا۔ بہت سے دوستوں اور چاہنے والوں نے مجھ ناچیز کو استاد کا درجہ دیتے ہوئے تہنیتی پیغامات بھیجے۔ بہت خوش قسمتی کے باوجود بھی میں اپنے آپ کو ان اساتذہ کی صف میں دیکھتاجن کی بدولت آج میں کسی مقام پر ہوں۔
چشم فیض اور دست وہ پارس صفت جب چھو گئے
مجھ کو مٹی سے اٹھایا اور فلک پر کر دیا
یقیناًہم اپنی زندگی کا پہلا لفظ والدین کی آغوش میں سیکھتے ہیں اور پہلا قدم ان کی نگرانی میں ہی اٹھاتے ہیں۔لہٰذا بلاشبہ وہ ہمارے سب سے پہلے معلم اور استاد ٹھہرے۔والدین کے بعد میں اپنے ان تمام اساتذہ کا ممنون ہوں جنہوں نے مجھے ایک لفظ بھی لکھنا یا پڑھنا سکھایا۔ ان میں محلے کی باجی، مدرسے کے قاری صاحب، سرکاری اسکول کے ٹیچرز، اکیڈمی کے اساتذہ اور پی ایچ ڈی میں راہنمائی کرنے والے پروفیسر سب ہی شامل ہیں۔میرے اساتذہ کی فہرست میں دو شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے میری یادداشت اور شخصیت پر انمنٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان میں ایک تو سرکاری اسکول کے ٹیچر جناب خلیل احمد صاحب تھے اور دوسرے کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر جناب ڈاکٹر منظور احمد صاحب۔
خلیل احمد صاحب ہم سب کلاس فیلوز کے پسندیدہ ترین استاد تھے۔ وہ ہمیں اسلام آباد کے گورنمنٹ اسکول نمبر 6 میں انگریزی اور اسلامیات پڑھاتے تھے۔ وہ تعلیم سے زیادہ تربیت پر توجہ دیتے۔ ان کی ڈانٹ اور مار میں بھی پیار تھا۔ان کے پڑھانے کا انداز اس بات کا مظہر تھا کہ وہ علم و ادب سے کس قدر محبت رکھتے تھے۔ وقت کا پہیہ تیزی سے اپنے چکر کاٹتا رہا اور ان کے تمام شاگرد ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ڈاکٹر، انجینئر، بیوروکریٹ وغیرہ بن گئے مگر ہمارے یہ شفیق استاد سالہا سال اسی طرح اسکول میں آنے والی نسلوں کی آبیاری کرتے رہے۔ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب میری پولیس سروس میں سلیکشن ہوئی تو میں اور میرے ہم جماعت دوست جو اس وقت پاک فوج میں تھے ہم نے استاد محترم سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ پھر سردیوں کی ایک رات اسلام آباد میں ان کا گھر ڈھونڈتے ہوئے ان کے دو شاگرد ASPکلیم امام اورکیپٹن اسد واحدی نے G-7/4میں ان کے چھوٹے سے فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ خلیل صاحب نے دروازہ کھولا۔ اسکول کو خیر باد کہے ہمیں 8 یا 9 سال گزر چکے تھے لیکن ان کی نظروں سے لگتا تھا کہ انہوں نے ہمیں فوراًپہچان لیا۔ فوراََ گھر کے اندر لے گئے۔ ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور جب ہم نے بتایا کہ ان کے یہ دو پودے کہاں پھل دے رہے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکا نہ نہ تھا۔ ہمیں پانچ منٹ میں آنے کا کہہ کر غائب ہو گئے۔ آدھے گھنٹے بعد جب واپس آئے تو معلوم ہوا کہ اس یخ بستہ سردی میں ہمارے لئے مقامی ٹرانسپورٹ سوزوکی میں بیٹھ کر آبپارہ گئے کیونکہ ٹرانسپورٹ کا باقاعدہ کوئی نظام توتھا نہیں، اور وہاں سے مرغی کا گوشت خرید کر واپس آئے اور بڑی محبت سے ہمیں کھانا کھلایا۔ ان کا گھر ایک سفید پوش اور ان کی بیگم کے سگھڑاپے کا منہ بولتاثبوت تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسکو ل میں بھی ان کا لباس نہایت سادہ ہوتا تھا۔ شاید بحیثیت سرکاری ٹیچر وہ اعلیٰ درجے کے لباس کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے تھے۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ ایک استاد جو کہ ہم سب کا محسن ہے اور جس کی تعلیم و تربیت کی بدولت ہم معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل کرتے، لاکھوں کروڑوں کماتے اور عالیشان بنگلوں میں رہتےہیں، وہ خود نہایت قلیل آمدنی میں اپنی سفید پوشی چھپاتا پھرے۔ ہمارے اساتذہ کی تنخواہیں بالعموم نہایت کم ہوتی ہیں اور یہ یقیناً کوئی مناسب طرزِ عمل نہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ اساتذہ کی تنخواہیں مناسب رکھی جائیں۔ جب ہم روانہ ہونے لگے تو مجھے خاص طور پر ایمانداری سے کام کرنے کی نصیحت کی۔کچھ عرصہ قبل اطلاع ملی کہ خلیل احمد صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
جناب ڈاکٹر منظور احمد صاحب ہمیں کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھاتے تھے۔جب میں نے یہ مضمون پڑھنا شروع کیا تو سب کچھ میرے سر کے اوپر سے گزرگیا۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس پہنچا اور عرض کیا کہ سر چھ مرتبہ تحریر پڑھنے کے بعد ہی کچھ سمجھ میں آتاہے۔ فرمانے لگے کہ پہلی دفعہ ہی پڑھ کر اگر سمجھ آجائے تو وہ فلسفہ ہی کیا۔ فلسفہ تو ہے ہی یہ کہ تم گہرائیوں میں ڈوب جاؤ پھر تم کو باتیں سمجھ میں آئیں گی، بنیادی طور پر علم و حکمت اور دانش مندی سے کام کو اپنا شعار بنائیں۔ یہ وہ اہم نکات تھے جو انہوں نے مجھے سمجھائے اور میں نے اپنی عملی زندگی میں یہی فارمولہ اپنانے کی بھرپور کوشش کی۔ منظور احمد صاحب نے فلسفہ جیسے خشک مضمون کو دلچسپ اور قابلِ تحقیق بنادیا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد اگرچہ میں نے کراچی یونیورسٹی میں یہ مضمون پڑھایا لیکن بعد میں پولیس کی نوکری کے چکروں میں ایسے پڑا کہ فلسفہ بھول گیا اور جرائم کی دفعات یاد رہ گئیں۔ ڈاکٹر منظور احمد صاحب سے مگررابطہ نہ ٹوٹا۔ وہ کراچی میں اہل فکر و دانش کی ماہانہ محفلیں منعقد کرتے اور مجھے بھی اس میں شرکت کا موقع دیتے۔ ایک روز مجھے اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا کہ علم حاصل کرنے کی بہت سی منزلیں ابھی باقی ہیں، رکو نہیں۔ اور یو ں ان کی طرف سے راستہ دکھانے پر میں پی ایچ ڈی کی منزل کی جانب چل پڑا۔ اب آپ بہت ضعیف ہو گئے ہیں۔ جب بھی کراچی جاتا ہوں تو خواہش ہوتی ہے کہ ان سے ضرور ملوں۔مجھے فخر ہے کہ ڈاکٹر منظور احمد صاحب جیسے مفکر اور فلسفی میرے Mentor ہیں۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم