• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زندہ اور مردہ انسان میں کیا فرق ہوتا ہے ؟یہ سوال میں نے ایک ایسے شخص سے کیا جسے مرنے کے بعد تازہ تازہ دفنایا گیا تھا۔ اُس کی قبر کافی تنگ تھی جس کی وجہ سے مجھے اُس سےبات کرنے میں دقت ہو رہی تھی، شاید مرنے والےکے رشتہ داروں نے اسے دفنانے سے پہلے قبر میں لیٹ کر اُس کی لمبائی چوڑائی کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔ اُس کے لواحقین تدفین کے بعد واپس جا چکے تھے اور اب بظاہروہ اپنی قبر میں تنہا تھا۔تھوڑی دیر بعد میں نےپھر اپنا سوال دہرایا جس کے جواب میں وہ کچھ بڑبڑا کر رہ گیا۔ میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اُس کے چہرے پر کھچاؤ کے آثار نظر آرہے تھے جیسے وہ کسی تکلیف میں ہو۔ مجھے لگا کہ اسے کوئی شے تنگ کر رہی ہے۔ اُس کی آواز کی منمناہٹ سے مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہناچاہ رہا ہے لیکن جب اُس نے اپنے کفن میں کروٹ لینے کی کوشش کی تو مجھے سمجھ آ گئی کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے لیٹے رہنے کو کہا اور پھر اُس کا کفن ڈھیلا کر دیا۔ مردے کی جان میں جان آ گئی۔ اُس نے گہری سانس لی اور پہلی مرتبہ کچھ کہا لیکن اُن الفاظ کی مجھے سمجھ نہ آئی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ تازہ دفنائے گئے مردے کی بات سمجھنے میں کچھ وقت لگتا ہے ، وہ فورا ً ہی بولنا شروع نہیں کرتا، پہلے وہ بچوں کی طرح غوں غاں کرتا ہے، پھر اُس کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلتے ہیں اور پھر کہیں جا کر وہ با معنی فقرہ کہنے کے قابل ہوتا ہے۔ اِس مردہ شخص کو بھی کچھ وقت دینا چاہیے، میں نے دل میں سوچا۔ وہ اب بھی گہرے گہرے سانس لے رہا تھا جیسے بہت جدو جہد کے بعد کسی تکلیف سے نجات پائی ہو،شاید اُس کا کفن بہت کس کے باندھا گیا تھا۔ ’’کیا یہاں پینے کو پانی ملے گا؟‘‘۔ یہ پہلا با معنی فقرہ تھا جو میں نے اُس کی زبان سے سنا تھا۔ ’’پتا نہیں‘‘، میں نے جواب دیا، ’’کل اگر تمہارے گھر والوں میں سے کوئی قبر پر حاضری دینے آیا تو شاید گورکن اُس کی آمد پر پانی کا کچھ چھڑکاؤ کردے، اِس کے علاوہ تو کوئی صورت نہیں۔ ‘‘ میرا جواب سُن کر اسے کچھ مایوسی ہوئی۔ ’’لیکن یہاں تمہیں پانی وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔ ’’چونکہ تم ابھی ابھی دنیا سے آئے ہو اِس لیے تمہیں دنیاوی چیزوں کی طلب ہو رہی ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔سوچ کر بتاؤ کیا واقعی تمہیں پیاس لگ رہی ہے؟ ‘‘ میری بات کے جواب میں وہ کچھ بڑبڑایا جس کی مجھے سمجھ نہ آئی۔

اب ہم اندھیرے کے عادی ہو چکے تھے۔ اچانک مجھے اُس کے رونے کی آواز آئی، میں نے غور سے دیکھا تو وہ شخص ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھااور ساتھ ہی کچھ بولتا بھی جا رہا تھا، اُ س کے الفاظ سے میں نے اندازہ لگایا جیسے وہ دنیا کو یاد کرکے رو رہا ہے۔ یہاں قبر میں چونکہ دلاسا دینے والا کوئی نہیں ہوتا اِس لیے بہت سے مردے خود ہی رو دھو کے چُپ ہو جاتے ہیں سو میں نے بھی اسے چُپ کروانا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ مردہ بھی تھوڑی دیر بعد خاموش ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ اپنے سوال کو دہرانے کا یہ مناسب موقع ہے۔ سو دوبارہ گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ ’’مرتے وقت تمہارے احساسات کیا تھے ؟ کیا تمہیں واقعی ایسا لگا کہ روح تمہارا جسم چھوڑ کر جا رہی ہے ؟ یا پھر تمہارا اپنے وجود پر اختیار ہی ختم ہو گیا ؟ ‘‘۔ میری باتیں سُن کر پہلی مرتبہ قبر میں اُس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری اور وہ بولا ’’کیا تمہیں یاد ہے کہ اپنی پیدائش سے پہلے تم کیا تھے؟ یا دنیا میں آنے سے پہلےتمہاری کیا کیفیت تھی ؟‘‘ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’بالکل اسی طرح مرتے ہوئے بھی کوئی نہیں بتا سکتا کہ اُس وقت کیا کیفیت ہوتی ہے، اُس وقت کوئی احساس نہیں ہوتا، نہ جسم سے جان نکلنے کا اور نہ اپنے وجودکے ختم ہونے کا۔ آخری سانس تک کیفیت وہی رہتی ہے اور پھر یکدم سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، بلکہ یہ کہنا بھی درست نہیں کیونکہ ختم ہونے کا احساس بھی تو نہیں ہو پاتا۔بالکل ویسے ہی جیسے اپنی پیدائش سے پہلےمجھے پتا ہی نہ چلا کہ کب میں لوتھڑے سے جسم بنا اور دنیا میں آگیا، بالکل اسی طرح مرتے وقت بھی مجھے پتا ہی نہ چل سکا کہ کب میں مرنے کے بعد دنیا سے قبر میں آگیا۔ ‘‘

چند لمحوں تک قبر میں سناٹا رہا۔ہم اندھیرے میں گھورتے رہے۔ پھر میں نے گلا کھنکار کر بات وہیں سے جوڑی جہاں مُردے نے ختم کی تھی۔’’تمہاری بات ٹھیک ہے، مجھے بھی ایسا ہی لگتاہے جیسے مرنے کے بعد ہماری وہی حیثیت ہوجاتی ہے جیسے پیدائش سے پہلے۔ ۔۔نا معلوم۔۔۔‘‘

’’نہیں، اب ایسا بھی نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو میں اِس وقت جنت کے انتظار میں یوں قبر میں نہ لیٹا ہوتا۔ ‘‘ مُردے کے لہجے میں تیقن تھا۔ ’’بلکہ اُس صورت میں تو ہم یہ باتیں بھی نہ کررہے ہوتے۔‘‘

’’اوہ! تو تمہیں اِس قدر یقین ہے کہ تم جنت میں جاؤگے ؟‘‘

’’ہاں، کیوں نہیں !‘‘مردے کا اعتماد اب کافی حد تک بحال ہو چکا تھا۔

’’لیکن یہ بھی تو ممکن ہے کہ ابھی تھوڑی دیر میں کیڑے مکوڑے یہاں قبر میں تمہاری لاش پر رینگنا شروع کردیں اور چند ہی دنوں میں تمہارا یہ بچا کھچا جسم مٹی میں مل جائے۔ تمہارے لواحقین تو شاید سال میں ایک مرتبہ ہی قبر پر آئیں گے مگر تمہیں اِس کا بھی کچھ پتا نہیں چل سکے گا کہ اِن میں سے کون آیا اور کون نہیں، تمہاری جائیداد کا کیا بنا، بچوں نے آپس میں کیسے تقسیم کی، تمہیں اُن کی کسی بات کا علم ہی نہیں ہو سکتا، کیونکہ جونہی تم زندہ سے مردہ ہوئے تمہارے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا، تمہارا جسم ناکارہ ہوگیا، بالکل ایسے جیسے کوئی مشین ناکارہ ہو جاتی ہے، اُس وقت اگر تمہاری لاش کو ہاتھی کے پاؤں کے نیچے بھی دے دیا جاتا تو تمہیں کچھ فرق نہ پڑتا‘‘۔

’’چپ ہو جاؤ، خدا کے لیے چُپ ہو جاؤ۔۔۔تم کون ہو اور کیوں مجھ سے یہ سب سوال کر رہے ہو؟ ‘‘مُردہ خوف سے بولا۔

’’میں توکوئی بھی نہیں ہوں۔ ۔۔کیا تمہیں کچھ دکھائی دے رہا ہے ؟ تمہاری قبر میں تو ویسے بھی تاریکی ہے۔ ۔۔ابھی کچھ دنوں میں یہاں فقط تمہاری ہڈیاں رہ جائیں گی اور وہ ہڈیاں بھی ایک دن ختم ہو جائیں گی اور تمہاراوجود اُن کروڑوں اربوں مُردہ لوگوں کی طرح صفراور بے معنی ہو جائے گا جو یہ ۔۔۔!‘‘

’’تم۔۔۔تم۔۔۔یقیناًابلیس ہو۔۔۔شیطان ہو ۔۔۔دفع ہو جاؤ یہاں۔ ۔۔‘‘مُردہ میری بات کاٹتے ہوئے چلایا۔’’میرا وجود ختم نہیں ہو سکتا، تم مجھے ورغلا رہے ہو، تم یہ چاہتے ہو کہ میں۔ ۔۔کہ میں ۔۔۔میں۔ ۔۔‘‘ مُردے نے اپنی بات ختم کرنے کی بجائے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کر دیا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے بھگانا چاہتا ہے، میں اب اُس کی قبر میں مزید نہیں رہ سکتا تھا، میں اسے چھوڑ کر وہاں سے دنیا میں واپس آ گیا جہاں میرا بہت سا کام باقی تھا۔

تازہ ترین