• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎اسٹیٹ بینک کی آزادی کی آڑ میں قومی خود مختاری پر وار

تحریر…اسحاق ڈار

موجودہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف) پروگرام کے تسلسل پر کئی سوالیہ نشان ہیں اور اس کی بحالی کے لیے، پی ٹی آئی حکومت نے پارلیمنٹ سے کچھ غیر آئینی ترامیم کی منظوری کی شرط کو تسلیم کر لیا ہے۔ بدقسمتی سے، پی ٹی آئی حکومت کے ڈرپوک مذاکرات کاروں کی طرف سے آئی ایم ایف کے ’’ڈو مور‘‘ کے منتر کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ فائدہ مند ہے یا نہیں، مختلف پی ٹی آئی کے وزرائے خزانہ اور اس کی اقتصادی ٹیم کی جانب سے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کو یکے بعد دیگرے تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اس نااہل حکومت کے آئی ایم ایف کے آگے بِچھ جانے والے رویے نے آئی ایم ایف کو مزید حوصلہ دیا ہے اور انہوں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956 (''ایس بی پی ایکٹ'') میں 17 دسمبر 2021 تک "پیشگی اقدامات" کے طور پر بڑے پیمانے پر ترامیم کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کے گورنر کی کرسی پر "اپنا آدمی" بٹھانے سے بھی آئی ایم ایف خوش نہیں اور اب IMF ایسی ترامیم پر زور دے رہا ہے جس سے اسٹیٹ بینک یعنی ہمارا مرکزی بینک، ریاست کے دیگر اداروں کے چیک اینڈ بیلنس سے مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا، اور اسے عملی طور پر پاکستان میں آئی ایم ایف کی ایک چوکی میں تبدیل کر دیا جائے گا۔

اس سال کے دوران پی ٹی آئی کی کابینہ نے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 (“SBP بِل”) کی منظوری دی۔ آئیں ہم آئی ایم ایف کے نام پر اس کٹھ پتلی پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے کی گئی اہم ترامیم پر بات کریں:

1) مرکزی بینک کے قیام کے اصل مقاصد میں تبدیلی:

ایس بی پی ایکٹ کی تمہید میں کہا گیا ہے کہ بینک کو "پاکستان کے مانیٹری اور کریڈٹ سسٹم کو ریگولیٹ کرنے اور اس کی ترقی کو فروغ دینے" کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔ مجوزہ ترامیم کی وجہ سے، اسٹیٹ بینک کے “ترقی/گروتھ” کے حوالے سے کردار کو مقاصد کی فہرست میں نیچے دھکیل کر مکمل طور پر زائل کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، SBP کے "نیم مالی" افعال بند کیے جا رہے ہیں۔

گھریلو بچت اور سرمایہ کاری کی کم شرح والے ایک تیسری دنیا کے ملک میں، SBP کے ترقیاتی کردار کو یوں اچانک تقریباً غیر فعال کرنا ترقی اور برآمدات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ برآمد کنندگان کا انحصار ایکسپورٹ ری فنانس فیسیلٹی (ERF) پر ہوتا ہے جو کہ 1973 سے موجود ہے، اور ایکسپورٹ اورینٹڈ انڈسٹریز ایکسپورٹ اورینٹڈ صنعتی یونٹس قائم کرنے کے لیے لانگ ٹرم فنانس فیسیلٹی (LTFF) کے خواہشمند ہوتے ہیں۔

پاکستان میں بینکنگ سیکٹر پہلے ہی پرائیویٹ سیکٹر کو ایڈوانسز کی سہولت دینے سے گریزاں ہے۔ "اڈوانسز ٹو ڈپازٹس ریشو" 50% سے بھی کم ہے اور اس میں مزید کمی آ رہی ہے۔ یہ صرف SBP کی بینکنگ سیکٹر کی طرف فعال اور جارحانہ پالیسی کا ہی نتیجہ تھا کہ تین ترجیحی شعبوں یعنی زراعت، ہاؤسنگ اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو بینکنگ سیکٹر قرض مہیا کرتا تھا- بعد کے دو شعبوں یعنی ہاؤسنگ اور SMEs کو SBP کے زور کے باوجود بہت ہی کم سطح پر قرض ملتا تھا۔ اسٹیٹ بینک کی ترجیحات میں “گروتھ” نکلوانے کی وجہ سے SBP کی بینکنگ سیکٹر کے حوالے سے بتائی گئی پالیسی اور کمزور پر جائے گی جس سے ملکی معیشت مزید خطرات سے دوچار ہو گی۔

2) حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کی دفعات کو ختم کرنا

‏SBP ایکٹ کا سیکشن 9C حکومت کو مرکزی بینک سے قرض لینے کی محدود سہولت فراہم کرتا ہے۔ قانون کہتا ہے کہ حکومت مرکزی بینک سے قرض لے سکتی ہے، لیکن ہر سہ ماہی کے اختتام پر اسے واپس کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں نیٹ قرضہ صفر رہتا ہے۔

اس پروویژن کا مقصد “گورنمنٹ پیپر” کی نیلامی کے وقت کمرشل بینکوں کی ملی بھگت سے حکومت کا تحفظ کرنا تھا۔ تاہم، اس شق کو واپس لینے سے وزارت خزانہ کمرشل بینکوں کے رحم و کرم پر آجائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ ماضی میں اس شق پر سختی سے عمل نہ کیا گیا ہو، لیکن یہ وجہ یقینی طور پر اسے مکمل طور پر حذف کرنے کا اہل نہیں بناتا۔ اس کے بجائے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ یقینی بنانا کہ حکومت سہ ماہی کے اختتام پر صفر نیٹ قرضے کے اصول کی پابندی کرے۔ یہ اسٹیٹ بینک کو حکومت کے اکاؤنٹ نمبر 1 میں ہر سہ ماہی کے آخر میں ایڈجسٹمنٹ کرنے کا اختیار دے کر حاصل کیا جا سکتا ہے۔

3) مانیٹری اینڈ فسکل کوآرڈینیشن بورڈ کا خاتمہ:

مانیٹری اینڈ فسکل کوآرڈینیشن بورڈ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک ضروری فورم ہے کہ مانیٹری اور مالیاتی پالیسیاں ہم آہنگ ہوں۔ یہ فورم مضبوط اور واضح بات چیت کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جو ان پالیسیوں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے۔ SBP بِل اس فورم کو ختم کرنے اور کوآرڈینیشن کو صرف گورنر اور وزیر خزانہ کے درمیان بنیادی "رابطہ" کی حد تک محدود کرنے کی تجویز کرتا ہے۔ یہ اسٹیٹ بینک کے مقاصد کے خلاف ہے۔ اس طرح کے "رابطہ" کے قیام کے فقدان کے نتائج کی وضاحت کیے بغیر یہ ایک موضوعی اور مبہم اصطلاح ہے۔ مانیٹری اور فسکل پالیسیوں میں ہم آہنگی ملک کے لیے انتہائی اہم ہے اور یقینی طور پر اسے محض SBP گورنر کی خواہشات پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

4) اسٹیٹ بینک گورنر کو ریاست سے مکمل طور پر خود مختار کیا جا رہا ہے:

‏SBP بِل میں تجویز کیا گیا ہے کہ گورنر، ایک بار مقرر ہونے کے بعد، صرف “سنگین بدانتظامی کی وجہ سے، جس کا تعین عدالت نے کیا ہو" ہٹایا جا سکتا ہے۔ اسی بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی اتھارٹی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری کے بغیر انکوائری ہی شروع نہیں کر سکتی۔ گورنر بورڈ کا سربراہ ہوتا ہے، اس طرح تو عدالت کی جانب سے سنگین بد انتظامی کا مرتکب ٹھہرانا تو دور کی بات، گورنر کسی بھی قسم کی کارروائی کے آغاز سے ہی مکمل طور پر مستثنیٰ ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی روشنی میں، اس طرح SBP گورنر پاکستان کے قوانین سے بالاتر ہو کر ایک مقدس گائے کی مانند ہو جائےگا جو پاکستانی عوام کے مفادات پر نظر رکھنے والے ایک ریاستی کارکن کے بجائے آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر خدمات انجام دے گا۔

5) گورنر اور بورڈ کسی بھی ریاستی ادارے کو جوابدہ نہیں ہوں گے

مجوزہ ترامیم کے ذریعے گورنر کا احتساب اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔ یہ جوابدہی کے نام پر تجویز کردہ ایک انتہائی تشویشناک عمل ہے جس کا مقصد گورنر کو کسی بھی قسم کی جوابدہی سے مستثنیٰ کرنا ہے۔ یہ ترمیم اسٹیٹ بینک کو جوابدہ ٹھہرانے کے مقصد کے لیے کافی نہیں اور ایسی رپورٹ کے مسترد ہونے کی صورت میں SBP کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی کی شقوں کو ڈالنا لازمی ہے۔

6) گورنر کی سروس کی شرائط و ضوابط جن کا تعین گورنر خود کرے گا

گورنر کی سروس کی شرائط و ضوابط کا تعین بورڈ کو کرنا ہے جس کی صدارت گورنر خود ہی کرتا ہے۔ کہاں ہے آزاد فیصلہ سازی کا اصول؟ ترمیم کے زریعے اگر اس طریقے سے گورنر کی سروس کی شرائط و ضوابط کا تعین کرنے کی اجازت دی گئی تو گورنر صرف اپنے مفادات کا تحفظ ہی کرے گا۔

7) بورڈ ممبران کی تقرری بورڈ کی سفارش پر کی جائے گی

بورڈ ممبران کی تقرری کے لیے حکومت کے اختیارات ممبران کو صرف ان لوگوں میں سے منتخب کرنے تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے جن کی بورڈ نے سفارش کی ہے۔ اس مجوزہ ترمیم کا مقصد ایک ایسے بورڈ کی تشکیل ہے جو ریاست کی نمائندگی نہ کرے بلکہ اپنی ہی پراکسیوں کی تقرری/تبدیلی کی سفارش کرکے بس اپنے ہی مفادات کا تحفظ کرتا رہے۔ اس طرح ایک مستقل بورڈ تشکیل پا جائے گا جو یا تو براہ راست (10 سال) یا اپنے نامزد کردہ افراد کے ذریعے کبھی تبدیل ہی نہیں ہو گا جو کہ ایک خطرناک عمل ہے۔

8) ڈپٹی گورنرز کی تقرری:

یہ تجویز ہے کہ ڈپٹی گورنرز کا تقرر وفاقی حکومت کے ذریعے گورنر کی طرف سے تجویز کردہ پینل میں سے ترجیح کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔ "ترجیح کی بنیاد" کے الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ ان کا تقرر دراصل گورنر ہی کرے گا۔ اس طرح ان کی تقرری بھی وفاقی حکومت کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔

9) گورنر کے عہدے کی مدت:

موجودہ قانون کے تحت گورنر کی تقرری تین سال کے لیے ہوتی ہے لیکن SBP بِل کے تحت ان کی مدت ملازمت پانچ سال ہوگی اور اس میں مزید پانچ سال کی توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔

10) گورنرز، ڈپٹی گورنر اور دیگر کو ہٹانا:

‏SBP بِل کے سیکشن 15 میں کہا گیا ہے: "تعیناتی اتھارٹی گورنر، ڈپٹی گورنر اور نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر یا مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی ممبر کو سیکشن 13 کے تحت کسی بھی عدم مطابقت یا نااہلی کے واقع ہونے کی صورت میں یا اگر ایسا شخص سنگین بدانتظامی کا مجرم پایا جاتا ہے جس کا تعین قانونی عدالت نے کیا ہو، دفتر سے ہٹا دے گی”۔

یہ شق آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی کرتی ہے جو شہریوں کو برابری کا حق فراہم کرتا ہے۔ اور یہاں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ قانونی عدالت میں بدعنوانی کے الزامات ثابت کرنے میں لگنے والا وقت دفتر میں موجود اہلکار کی مدت سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایسا

اہلکار بدانتظامی کا فیصلہ آنے سے بہت پہلے متعلقہ مدت پوری کرنے کے بعد ملک چھوڑ جائے۔

‏11) SBP ایکٹ میں مستقبل کی ترامیم

‏SBP بِل میں یہ شِق بھی شامل ہے کہ مستقبل میں SBP ایکٹ میں مرکزی بینک کی پیشگی رضامندی سے ہی ترمیم کی جا سکتی ہے، جو کہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کے اختیارات کو کم کرنے کے مترادف ہے۔

سیکشن 46B کے ذیلی سیکشن 5 میں یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ کے ساتھ "انٹرایکٹ اور کمیونیکیٹ" کرے گا۔ الفاظ "انٹرایکٹ اور کمیونیکیٹ" بنیادی طور پر مخاطب کرنے کے حق کو ظاہر کرتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 57 کے مطابق صرف وزیراعظم، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت اور اٹارنی جنرل ہی پارلیمنٹ کی کارروائی میں حصہ لینے اور اس سے مخاطب ہونے کے حقدار ہیں۔ یہ ترمیم اسٹیٹ بینک یا اس کے عہدیداروں کو پارلیمنٹ سے انٹرایکٹ اور کمیونیکیٹ کرنے کا حق دینے کی تجویز کر رہی ہے جس کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس کے مطابق، یہ صرف وزارت خزانہ ہے جو وزیر خزانہ کے ذریعے پارلیمنٹ کے ساتھ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ''انٹرایکٹ اور کمیونیکیٹ'' کرنے کی قانونی طور پر مجاز ہے۔

اسی طرح، سیکشن 46B کا ذیلی سیکشن 8 جو کہ فنکشنل اور ادارہ جاتی خود مختاری سے متعلق ہے، تجویز کرتا ہے کہ: "بینک سے متعلق کسی بھی مجوزہ قانون سازی کے بارے میں پہلے بینک سے مشورہ کیا جائے گا"۔

قانون سازی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور نہ ہی آئین اور نہ ہی کوئی قانون اسٹیٹ بینک سے متعلق کسی بھی قانون سازی کی منظوری سے پہلے پارلیمنٹ کی اسٹیٹ بینک سے براہِ راست مشاورت کے لئیے کوئی گنجائش رکھتا ہے۔ اگر اسٹیٹ بینک کوئی اِن پُٹ دینا چاہتا ہے تو وہ صرف وزارت خزانہ کے ذریعے ایسا کر سکتا ہے۔

12) اسٹیٹ بینک کے اہلکاروں کے خلاف کرِمِنل تحقیقات کے خلاف تحفظ:

اسٹیٹ بینک ترمیمی بِل اسٹیٹ بینک کے حکام کو انسداد بدعنوانی ایجنسیوں کی مجرمانہ تحقیقات کے خلاف تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

سیکشن 52A کے ذیلی سیکشن 3 میں اس طرح ترمیم کرنے کی تجویز دی گئی ہے: "اس وقت نافذ العمل کسی بھی دوسرے قانون میں موجود شقوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، بشمول قومی احتساب آرڈیننس، ایف آئی اے ایکٹ، SBP آفیشلز کے خلاف نیب یا ایف آئی اے یا صوبائی تحقیقاتی ایجنسی، بیورو، اتھارٹی یا کسی بھی نام سے پکارے جانے والے کسی بھی ادارے کی جانب سے بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی بھی کارروائی، انکوائری یا تفتیش نہیں کی جائے گی"۔

اور سیکشن 52A کی ذیلی دفعہ 4 کے مطابق: "تحفظ اور معاوضے کا اطلاق سابق ڈائریکٹرز، گورنرز، ڈپٹی گورنرز، کسی بھی بورڈ کے ممبران، کمیٹیوں، مانیٹری پالیسی کمیٹی، بینک کے افسران اور ملازمین کی ملازمت کے دوران کسی بھی قسم کی کی گئی کمیشن یا کوتاہی پر ہوتا ہے"۔

‏SBP بِل SBP کے موجودہ اور سابق گورنرز اور عہدیداروں کو جس قسم کا تحفظ فراہم کر رہا ہے وہ منفرد ہے اور مالیاتی شعبے میں کام کرنے والے ملازمین تو دور سپریم کورٹ آف پاکستان کے کسی جج تک کو بھی ایسی استثنیٰ دستیاب نہیں۔

نتیجہ:

آخر میں، مجوزہ ترامیم سے ایک ایسے گورنر اسٹیٹ بینک کو یقینی بنایا جا رہا ہے جو کسی بھی ریاستی ادارے سے مکمل طور پر آزاد ہو گا، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ وہ خود بورڈ کا سربراہ ہو گا۔ گورنر کو بغیر کسی چیک اینڈ بیلنس کے بے جا اختیارات کے ساتھ ساتھ ہر قسم کا استثنیٰ بھی دیا جا رہا ہے جو درحقیقت SBP گورنر کو گورنر جنرل آف پاکستان بنا دے گا جس پر اسٹیٹ کی رِٹ لاگو نہیں ہو گو اور کسی پاکستانی قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔

مزید برآں، اسٹیٹ بینک کے گورنر کو ہٹانے سے متعلق سیکشن 15، 46B، اور 52A میں تجویز کردہ ترامیم، مستقبل میں اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اختیارات کو محدود کرنا اور اسٹیٹ بینک کے گورنر اور دیگر حکام کو بالترتیب مجرمانہ کارروائیوں سے مکمل تحفظ فراہم کرنا، واضح طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہیں۔ یہ غیر آئینی اور امتیازی ترامیم جن کو پی ٹی آئی حکومت پراسرار طریقے سے پارلیمنٹ کے ذریعے بلڈوز کر رہی ہے اگر نافذ ہو بھی گئیں تو سپریم کورٹ ان کو ختم کر سکتا ہے۔ یہ واقعی حیران کن ہے اور یقینی طور پر اس بات کی تحقیقات کا متقاضی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اس طرح کی ناقص، غیر قانونی اور غیر آئینی ترامیم پر کس نے مذاکرات اور اتفاق کیا اور کس کے کہنے پر یہ سب کچھ ہوا؟ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ کس طرح کابینہ نے SBP ترمیمی بل 2021 کی منظوری دی جس میں یہ غیر آئینی اور امتیازی ترامیم شامل ہیں بغیر طریقہ کار کی سنگین خرابی کا مشاہدہ کیے جس میں وزارت قانون کو، سمری کو کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کرنے سے قبل، پیشگی رضامندی دینے کی ضرورت تھی۔ سوال یہ ہے کہ طریقہ کار میں خامیوں کے باوجود سمری کو منظور کرنے کے لئیے کابینہ کی اجازت کس نے دی؟

‏SBP بِل کے ذریعے SBP ایکٹ میں مذکورہ بالا ترامیم اگر عمل میں لائی گئیں تو یقیناً پاکستان کے معاشی مفادات کے خلاف ہوں گی۔ دنیا کے کسی ملک نے اپنے مرکزی بینک کو اتنی خود مختاری یا آزادی نہیں دی۔ ہمیں اس دن پر بحیثیت قوم افسوس رہے جا جب ہم نے ان سب باتوں پر اتفاق کیا، خاص طور پر سٹیٹ بینک کی ترقی/گروتھ کے حوالے سے ذمہ داریوں کو تقریباً ختم کرنے پر کیونکہ اس ترمیم کے بعد گروتھ مرکزی بینک کی ترجیحات میں شامل نہیں رہے گی۔ یہ SBP بِل موجودہ معاشی تباہی کو مزید بڑھانے میں سہولت فراہم کرے گا جو آگے جا کر ریاست کی خودمختاری پر سمجھوتہ کرنے کا باعث بنے گی۔

تازہ ترین