وسائل محدود اور مسائل لاتعداد ہونے کے باوجود بلند عزم و حوصلے نے ناممکن کو ممکن کردکھایا، شکارپور کے کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں تھانے کا قیام عمل میں لاکر ڈاکوؤں کے مستقل خاتمے کی بنیاد رکھ دی۔ اونچے مقامات پر پولیس چوکیاں بھی قائم، جدید اسلحے سے لیس پولیس جوان و کمانڈوز تعینات، ڈاکوؤں کا مکمل گھیراؤ، نگرانی سخت، فرار کے تمام راستے مدرود، بوکھلاہٹ کا شکار ڈاکوؤں نے فرار ہونے کی کوشش میں تھانے پر حملہ کیا، جو بہادر پولیس افسران و جوانوں نے اپنے خون سے ناکام بنادیا، ڈاکوؤں کے حملے میں زخمی ہونے والا ایک سپاہی جام شہادت نوش کرگیا۔
جب کہ ایس ایچ او سمیت دو پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔ مشہور زمانہ کچے کے خطرناک علاقے گڑھی تیغو میں تھانے اور پولیس چوکیوں کے قیام کو ڈاکو راج کے خاتمے اور قانون کی رٹ بحال ہونے کی نوید سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سندھ حکومت انفرا اسٹرکچر، اسکول، اسپتال، سڑکوں کی تعمیر اور قبائلی جھگڑوں کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرکے بڑی حد تک کچے کے علاقوں سے ہمیشہ کے لیے ڈاکوؤں کے خاتمے کو یقینی بناسکتی ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے پولیس کی آپریشنل ضروریات پوری کیے بغیر کیا ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی ممکن ہو سکے گی؟ کیا شکارپور، کشمور میں پولیس ڈاکو راج کا خاتمہ اور مستقل امن قائم کرنے میں کام یاب ہوجائے گی؟
یہ سوالات آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ 13 سال سے برسراقتدار پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت آخر کب پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرے گی، آج بھی ڈاکوؤں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ موجود ہے، اور چند روز قبل شکارپور کے خطرناک کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں ڈاکوؤں نے پولیس کا محاصرہ توڑنے اور فرار ہونے کی کوشش میں گڑھی تیغو تھانے پر حملہ کیا۔
پولیس کی جوابی فائرنگ میں تین ڈاکو بھی زخمی ہوئے ہیں، یہ وہی خطرناک مقام ہے جہاں 6 ماہ قبل ڈاکوؤں نے 3 پولیس اہل کاروں کو شہید کرکے پولیس کی بکتر بند گاڑی پر قبضہ کیا تھا اور بکتر بند پر چڑھ کر ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے پولیس کو چیلنج کیا اور یہ پیغام دیا تھا کہ پولیس دوبارہ کچے میں آنے کی ایسی غلطی نہ کرے، جب بھی پولیس آئے گی، اس کے ساتھ ایسا ہی ہوگا، لیکن آج اس مقام پر پولیس فورس بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ مورچہ بند ہے اور ڈاکوؤں کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔
6 ماہ قبل شکارپور میں تعینات ہونے والے آپریشن کمانڈر ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے پولیس اہل کاروں کی شہادت میں ملوث اور علاقے میں خوف کی علامت بنے ہوئے ڈاکووں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا اور اس مختصر عرصے میں بدنام ڈاکو جھنگل تیغانی، جان محمد تیغانی اور جھرکی تیغانی سمیت 20 ڈاکو مارے گئے ہیں، اور کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن اور ان کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لیے چاروں اطراف بلند پولیس چوکیاں پہلی بار تعمیر کرائی جارہی ہیں، اور وہاں جدید اسلحہ کے ساتھ 24 گھنٹے پولیس کمانڈوز کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا ہے، سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں تھانہ بھی قائم کردیا ہے، جو شاید ڈاکوؤں کو کسی صورت برداشت نہیں ہے۔
اس وقت کچے کی صورت حال یہ ہے کہ چاروں طرف سے پولیس نے ڈاکوؤں کا گھیراؤ کر رکھا ہے، 6 ماہ میں پولیس نے نامساعد حالات کے باوجود آپریشن کمانڈر کی بہتر حکمت عملی سے وہ نتائج حاصل کیے ہیں، جو اس ضلع میں پولیس کئی دہائیوں میں بھی حاصل نہیں کرسکی تھی۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے 6 ماہ قبل پولیس اہل کاروں کی شہادت کے موقع پر شکارپور پولیس کی بریفنگ کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ ڈاکوؤں کا خاتمہ کریں گے اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد سرکاری زرعی اراضی ڈاکوؤں سے خالی کرائیں گے، لیکن شاید وہ بڑا اعلان صرف اعلان تک ہی محدود رہا، کوئی عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔
سب سے اہم اور ضروری چیز یہ ہے کہ آج بھی لاڑکانہ رینج میں 6 ہزار پولیس اہل کاروں کی اسامیاں خالی پڑی ہیں، جن کی تنخواہیں بھی آتی اور واپس جاتی ہیں۔ اس طرح سندھ میں پولیس اہل کاروں کی ہزاروں اسامیاں خالی ہوں گی اور 2016 کے بعد سے اب تک محکمہ پولیس میں بھرتیاں نہیں کی گئیں۔ آخر سندھ حکومت پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے، جدید اسلحے سے لیس اور درپیش مسائل کو کب حل کرے گی؟
حالیہ نئے قائم ہونے والے پولیس اسٹیشن پر ڈاکوؤں کی جانب سے حملہ کرنے پر ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو نے بتایا کہ گڑھی تیغو تھانہ ابھی قائم کیا گیا ہے اور کچے میں پولیس نے ڈاکوؤں کا گھیراؤ ایسا کیا ہے کہ اب ڈاکوؤں کا فرار ہونا ممکن نہیں ہے، کیوں کہ پولیس نے ایسی ترتیب سے چوکیاں بنائی ہیں کہ جہاں سے نکلیں گے، انہیں پولیس کا سامنا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں رات کے آخری پہر میں بدنام ڈاکو خیرو تیغانی گینگ نے فرار ہونے کی کوشش میں تھانے پر حملہ کیا، پولیس کے افسران اور جوانوں نے بہادری کے ساتھ اس حملے کو ناکام بنادیا۔
حملے میں ایس ایچ او رالف پٹھان اور سپاہی واحد بخش بھٹو زخمی ہوگئے، بعد ازاں سپاہی واحد بخش بھٹو جام شہادت نوش کرگئے، شہید پولیس اہلکار کی نماز جنازہ پولیس لائن شکارپور میں ادا کی گئی، جس میں ڈی آئی جی لاڑکانہ مظہر نواز شیخ، ایس ایس پی شکارپور تنویر حسین تنیو، ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ، ایس ایس پی سکھر عرفان علی سموں سمیت شہید کے عزیز و اقارب، پولیس افسران اور بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔ اس بار ڈاکوؤں کے حملے اور فرار کی کوشش ناکام بناتے ہوئے پولیس نے بہادری سے مقابلہ کیا اور ڈاکوؤں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب صورت حال پہلے جیسی نہیں ہے، اب ڈاکووں کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ڈاکو اپنے آپ کو سرنڈر کردیں، ورنہ کسی صورت انہیں نہیں چھوڑیں گے، ڈاکو یاد رکھیں اب ہم کچے میں آگئے ہیں ۔
شہید پولیس اہل کار کی قربانی مشعل راہ ہے، شہداء کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے، پولیس ملوث ڈاکووں کو منتطقی انجام پر پہنچا کر دم لے گی، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ پولیس جوانوں پر حملہ اور انہیں شہید کرنے والوں سے بھرپور حساب لیں اور ہر صورت قانون کی رٹ قائم ہوگی، ڈاکو تھانے پر حملہ کرکے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے، یہ تھانہ اور اونچی چوکیاں تعمیر کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اب کچے میں پولیس مہمان کی طرح نہیں، بلکہ مستقل طور پر یہاں موجود رہے گی، ڈاکووں کو شہداء کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب دینا پڑے گا۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں شکارپور آیا تو میں نے دیکھا کہ ڈاکو کچے میں نیچے کی سائیڈ پر موجود ہوتے ہیں، جہاں پولیس نہیں پہنچ پاتی تھی اور اگر کبھی پولیس گئی بھی تو ڈاکوؤں نے پولیس پر پہلے حملہ کردیا، کیوں کہ پولیس کی بکتر بند یا چین اے پی سی گاڑی کا راستہ اوپر ہونے کے باعث ڈاکو دور سے پولیس کو دیکھ لیتے تھے اور پولیس پر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے تھے، جس سے پولیس کا کافی نقصان ہوا ہے، ہمارے افسران اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، میں نے چار سے پانچ نئی بلند پولیس چوکیاں قائم کرکے ان چوکیوں کی چھتوں اور مورچوں میں پولیس اہل کاروں اور کمانڈوز کو جدید اسلحے کے ساتھ تعینات کردیا ہے۔
اب پولیس اونچی چوکیوں سے ڈاکوؤں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور سب سے اہم نا ممکن کام یہ تھا کہ گڑھی تیغو میں مستقل بنیادوں پر تھانہ قائم کردیا گیا ہے اور تھانے کے اوپر چاروں اطراف پولیس کے مورچے بنائے جارہے ہیں، ایس ایچ او سمیت پولیس نفری 24 گھنٹے تھانے پر موجود رہے گی، ڈاکوؤں کے سارے ہی راستے خاص طور پر گڑھی تیغو والا جو مین راستہ تھا، اس سمیت دیگر راستے بند کردیے گئے ہیں۔
اب ڈاکو پریشان ہیں اور فرار کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں، تھانے پر حملہ بھی ڈاکووں کا پولیس کو کمزور کرنے اور فرار کا راستہ اختیار کرنے کا منصوبہ تھا، جو ہمارے افسران اور جوانوں نے خاص طور پر شہید پولیس اہل کار واحد بخش بھٹو بہادری نے لڑتے ہوئے ناکام بنا کر ڈاکوؤں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے ،جب کہ پولیس جو کہ پہلے ہی چوکس تھی اور اب انتہائی چوکس ہوگئی ہے، کیوں کہ پولیس کی جانب سے جھنگل تیغانی اور جان محمد سمیت دیگر ساتھیوں کی ہلاکت کے باعث ڈاکووں کو پہلی بار بڑا اور بھاری نقصان ہوا ہے، جس کے بعد یہ توقع تھی کہ ڈاکو پولیس پر حملہ کر سکتے ہیں اور ڈاکووں نے تھانے پر حملہ بھی کیا، جو پولیس جوانوں نے ناکام بناکر یہ ثابت کیا کہ وہ ہر طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور پولیس ڈاکوؤں کا مکمل قلع قمع کرے گی۔
ہم سارے حساب چکائیں گے، ڈاکوؤں کی مکمل سرکوبی کے لیے حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے، چھوڑیں گے نہیں، میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کچے میں آپریشن وہ نہیں ہوتا کہ پولیس صبح جائے شام واپس کو آجائے، کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کچے میں جائے اور وہاں بیٹھ جائے، تو آپریشن کے مثبت نتائج ملتے ہیں، جس کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کمانڈر خود کچے میں رہ کر آپریشن کی سربراہی کرئے گا، تو اس سے پولیس افسران اور جوانوں کا مورال بلند ہوگا۔
اگر پولیس کمانڈر اپنے دفتر یا بنگلے میں بیٹھ کر آپریشن کرئے گا تو وہ کسی صورت کام یاب نہیں ہوسکتا، ہمارا ٹیم ورک اتنا مضبوط ہے کہ ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ خود کچے میں موجود ہیں، ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ بھی دونوں اضلاع کے کچے میں کیمپوں کا دورہ کرتے ہیں اور پولیس جوانوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں، آپریشن کا جائزہ لیتے ہیں، ایک بہترین ٹیم ورک کے ساتھ ہم ٹارگٹڈ آپریشن کررہے ہیں۔
اگر ہم ضلع شکارپور پولیس کی حالیہ 6 ماہ کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو ان نامساعد حالات کے باوجود پاکستان پولیس سروس میں اینٹی ڈکیٹ آپریشن کی مہارت رکھنے والے اس آپریشن کمانڈر کی سربراہی میں پولیس نے بڑی کامیابیاں اپنے دامن میں سمیٹی ہیں، ڈاکو ، منشیات ، ناجائز اسلحہ، بھاری تعداد میں ہتھیار، مغویوں کی بازیابی سمیت ایک وقت میں کئی محاذ پر پولیس لڑ رہی ہے۔
آپریشن کمانڈر ایس ایس پی کے مطابق 6 ماہ میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان 64 مقابلے ہوئے جن میں دو انعام یافتہ ڈاکووں سمیت 20 ڈاکو مارے گئے، 6 زخمی 298 گرفتار ہوئے، ڈاکوؤں کے 24 گینگ ختم کیے گئے، بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا، جس میں 19 کلاشنکوف، 58 گنز، تین رائفل، 58 پسٹل، سیکنڑوں راونڈ شامل ہیں، منشیات فروشوں اور اسمگلرز اور معاشرتی برائیاں پھیلانے والے عناصر کے خلاف کریک ڈاون میں 483 کلو چرس، 25 بوتلیں شراب، 11 کلو بھنگ، 207 کلو گٹکا، 2450 لیٹر ایرانی تیل، لاکھوں روپے مالیت کا مسروقہ سامان جس میں 75 موبائیل فون ، ایک ٹرک دو کاریں 42 موٹر سائیکل برآمد کی گئیں 35 مغویوں کو ڈاکووں کے چنگل سے بازیاب کرایا گیا، 55 افراد کو اغوا ہونے سے بچایا گیا، مختلف کاروائیوں میں 306 اشتہاری 435 روپوش ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
پولیس کی جانب سے شکارپور کو جرائم، منشیات اور ڈاکووں سے پاک ضلع بنانے کے لئے جو کوششیں کی گئی ہیں اس کے باعث مختصر عرصے میں شکارپور میں کرائم کا گراف بہت نیچے آیا ہے۔