سندھ پولیس اس وقت انتظامی طورکے بُحران کا شکارنظر آرہی ہے ۔ اس وقت بھی ڈی آئی جیز کی 5سیٹوں خالی پر نامعلوم وجوہ کے باعث تاحال تعیناتی نہیں کی جاری ہے۔ دوسری جانب روٹیشن پالیسی کے دوسرے مرحلے کےتحت 8ڈی آئی جیزکی خدمات سندھ سے صوبہ پنجاب ،کے پی کے ،اور بلوچستان کے سپر د کر دی گئی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہو تا ہے مذکورہ 5 خالی سیٹوں کی تعیناتی کی راہ میں رکاوٹ کون ہے۔ انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق آئی جی سندھ گریڈ 19سے 20میں ترقی پانے والے من پسند2 افسران کے نوٹیفکیشن کے منتظر ہیں ،تاکہ بہ حیثیت ڈی آئی جی ان کی تعینا تی کی راہ ہموار ہو سکے ۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ آئی جی سندھ مشتاق مہر اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ وزیر اعلی سندھ آئی جی کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں ہیں ۔آئی جی سندھ وزیر اعلی سندھ سے تعلقات کی بحالی کے لیے کوشاں بھی نطر آرہے ہیں ۔ کیا ان کے تعلقات دوبارہ ہو جائیں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
ادھر اسٹیبلشمنٹ ڈوییژن اسلام آباد نے 9نومبرکو روٹیشن پالیسی کےکے دوسرے مرحلے کے تحت چند بااثر سمیت سندھ پولیس کے گریڈ 20 کے8 ڈی آئی جیز کے بڑے پیمانے پرپنجاب ،خیبر پختونخواہ اور بلوچستان تبادلے کر دیے ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ڈی آئی جی سیکیورٹی مقصود احمد میمن ،ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید اکبر ریاض اور ڈی آئی جی اسپیشل برانچ نعیم احمد شیخ کی خدمات حکومت پنجاب، جب کہ ڈی آئی جی ایسٹ ثاقب اسماعیل میمن، ڈی آئی جی عبد اللہ شیخ اور ڈی آئی جی سی آئی اے نعمان صدیقی اور محمد یونس چانڈیوکا ایف آئی اے سے تبادلہ کر کے ان کی خدمات حکومت خیبر پختونخواہ کے سپرد ،جب کہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد کا تبادلہ بلوچستان کر دیا گیا۔
دریں اثنا خیبرپختون خواہ ، اور پنجاب سے گریڈ 20 کے8 ڈی آئی جیز کی خدمات سندھ حکومت کے حوالے کی گئیں ہیں، جن میں خیبر پختون خواہ سے محمد کریم خان ، پنجاب سےمحمدزبیر دریشک ،خیبرپختون خواہ سےعبدالغفور آفریدی ، پنجاب سےسید خرم علی ، پنجاب سے زعیم اقبال شیخ ،نپجاب سے سہیل اختر اور پنجاب سے ہی ڈاکٹرنعام وحید خان کی خدمات حکومت سندھ کے حوالے کر دیں گئیں، لیکن سندھ پولیس کے آٹھوں ڈی آئی جیز تاحال اپنے عہدوں بر اجمان ہیں، یہاں یہ امر بھی قابل ذکرہے کہ سونے پرسہاگہ کے مصداق وزیر اعلی سندھ نےبھی مذکورہ ڈی آئی جیز کی خدمات دوسرے صوبوں کے حوالے نہ کرنے کااعلان کیا ہے ۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ تبادلے کے نوٹیفکیشن کےاجراء کے باوجود ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد نےاچا نک اور حیرت انگیز طور پرسندھ پولیس کے افسر اور سی ٹی ڈی القائدہ اور داعش سیل کے انچارج راجہ عمر خطاب کی اعلی خدمات کے اعتراف میں سی ٹی ڈی سول لائنز سیل کا نام تبدیل کر کے راجہ عمر خطاب (آریوکے) کمپلیکس سول لائنزکردیا ہے اور ایک آفس آڈرکے ذریعے تمام افسران کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سے دفتری کارسپنڈس مذکورہ نام سے کی جائے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ڈی آئی جی، سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد کو بلوچستان تبادلےکا نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی 2011میں قتل ہونے والے سعودی سفارت خانے رکن کے قتل کی تفتیش بھی یاد آگئی، 2011سال سے ناقابل حل کیس کو ملکی سلامتی کا کیس قرار دے کر خود ہی جے آئی ٹی کے سربراہ بن گے اور 2011 میں سعودی سفارت خانے کے رکن حسن الخطانی کے قتل کی تحقیقات کے لیےاسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد کی جانب سے جاری کے گئے خط کے مطابق درخشاں تھانے میں درج مقدمہ نمبر 162/2011 کے حوالےسے سعودی عرب کی درخواست اور حکومت کے احکامات پر اتوار 14نومبرکو اپنی ہی سربراہی میں ایک نئی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی ہے ، جس میں سی ٹی ڈی افسران، آئی ایس آئی، آئی بی اور رینجرز افسران شامل ہیں، کمیٹی کا پہلا اجلاس پیر 15نومبر کو ایس پی انویسٹی گیشن آفس سی ٹی ڈی میں طلب بھی کرلیا۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے2007میں ہونے والے سانحہ کارساز کی تحقیقات کے لیے 10برس بعد 2017میں ثنااللہ عباسی کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی میں عمر شاہد بھی شامل تھے ، لیکن اس حوالے سے بھی تاحال کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے ۔دوسری جانب خٰیبر پختون خواہ تبادلہ کیے جانے والے ڈی آئی جی سی آئی اے نعمان صدیقی نےاپنےتبادلے کوالتوا میں ڈالنے کے لیے 21نومبر سےترکی میں 5روزہ کورس کے لیے رخصت مانگ لی ہے، لیکن قواعدو ضوابط کے تحت انھیں پہلے جوائننگ دینا لازمی ہے۔
پنجاب تبادلہ کیے جا نے والے ڈی آئی جی سیکیورٹی اینڈ ایمرجنسی سروسز ڈویژن مقصود احمد میمن احمد بھی اپنا تبادلہ رکوانےکے لیے انتہائی محترک نظرآرہے ہیں ،اور گزشتہ دنوں ان کی ہدایات پر 500 پولیس اہل کاروں پر مشتمل اینٹی رائٹ فورس تشکیل دے دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ فورس کے قیام کا مقصد شہر میں امن و امان کی صورت حال سے متعلق کسی بھی صورت حال سے نمٹنا ہے۔ فورس کی تشکیل کا فیصلہ ایڈیشنل آئی جی کراچی کی زیر صدارت ہونے اجلاس میں کیا گیاتھا۔
یہ فورس ہنگامی حالات میں مقامی پولیس اور دیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرے گی ،اینٹی رائٹ فورس ایس ایس یو کمانڈوزاور سیکیورٹی ڈویژن کے اہل کاروں پر مشتمل اور جدید ترین اینٹی رائٹ سامان سے لیس ہے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے چوبیس گھنٹے الرٹ رہےگی۔ فورس شہر میں شرپسندوں کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ فورس کے اہل کار تربیت یافتہ اور جدید ترین آلات سے لیس ہیں۔
علاوہ ازیں ایف آئی اے سے سندھ سے خیبر پختون خواہ تبادلہ کیے جانے والے افسر محمد یونس چانڈیوکو ایف آئی اے کی جانب سے سول ایوی ایشن اتھاڑی کی زمین تحقیقات کے بنائی گئی۔ کمیتی کا چیئر مین بنادیا گیا ہے ۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ افضل لطیف کاشمار ان چند ایمان داراوربااصول افسران میں ہو تا ہے، جو کبھی بھی اصولوں پر سودا نہیں کرتے ۔عوامی حلقے یہ سوال بھی کرتے ہیں جب محکمے میں روٹیشن پالیسی کے تحت ہی تبادلےکیے جاتے ہیں، توسندھ پولیس کے مذکورہ 8ڈی آئی جیز بھی اس کے پابند ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مذکورہ افسران سیکڑیٹری اسٹیبلشمنٹ کے نوٹیفکیشن کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں ۔