آج کل ہر انسان اپنے لئے سوچتا ہے اور فکر معاش میں ارد گرد سے لا تعلق سا نظر آتا ہے۔ بے روزگاری ، مہنگائی، فقر وفاقہ، بے چینی، بدامنی اور اضطراب میں بے انتہااضافہ ہوگیا ہے، اس صورت حال نے بے شمار معاشرتی، اقتصادی ، تہذیبی اور ثقافتی وتمدنی مسائل کو جنم دیا ۔ اکثریت خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ انسان کی ضروریات میں صحت، تعلیم، لباس اور طعام و قیام ہے ،مگر بیش تر ان سے محروم ہیں۔ایسے حالات میں قابل تحسین ہیں وہ نوجوان جو لوگوں کے دُکھ درد سمیٹنے اور ان میں آسانیاں بانٹنے کے لئے سرگرم ہیں۔
وہ دکھی انسانیت کی خدمت اور فلاحی کام میں حصہ لے کر معاشرے کی بہت بڑی خدمت کر رہے ہیں ۔ایک دوسرے کے کام آنا اچھے معاشرہ کی تشکیل کا نقطہ ٔ آغاز ہوتا ہے۔جن معاشروں میں انفرادی، اجتماعی، ریاستی اور قومی سطح پر انسانوں میں درد مندی، خدمتِ خلق اور انسانی فلاح و بہبود کا جذبہ نظری ، فکری اور عملی طور پر مروج ہے وہ معاشرہ مجموعی طور پر دن دْگنی رات چوگنی ترقی و خوشحالی کے زینے آسانی سے چڑھ رہے ہیں۔
آج کے اس پرفتن دور میں کچھ نوجوان بھی فلاحی کاموں میں کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ دوسروں کے لیے روشنی کی کرن ہیں، جو خدمت خلق کے جذبے سے سرشاراپنا کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ایسے درد دل رکھنے والے نوجوان معاشرے کی شان ہیں، وہ بے غرض ہو کر خدمت خلق کا کام انجام دے رہے ہیں۔ اس کھٹن دور میں مثبت اور تعمیری سوچ کا ہونا بھی ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں چراغ جلانا۔اس سوچ کو پروان چڑھانے کا سہرا بھی ایسے ہی نوجوانوں کے سر جاتاہے۔
یہ حقیقت ہے کہ نوجوان دماغی و جسمانی لحاظ سےدوسروں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں، ان میں ہمت و جستجو کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت فلاح و بہبود کے کام کر رہے ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی طور پر بھی مثبت و تعمیری سوچ کواُجاگر کریں اور مفاد عامہ کے مسائل کے حل کے لئے سماجی تقاضوں کے تحت کوششیں کریں، کیونکہ وہ خود بھی معاشرے کی بنیادی اکائی ہیں۔
رفاہ عامہ اور معاشرتی فلاح وبہبود کا مطلب، اجتماعی مسائل اور کوششوں کو اس طرح بروئے کار لانا ہے کہ کوئی بے خانہ وبے خانماں نہ رہے۔ حالت مرض میں مریض محروم دوانہ رہ جائے۔ جہالت ، ذہن و دل کی تاریکی ہے۔ اجتماعی کوششوں سے اسے ضیائے علم سے دور کیا جائے اور کوئی بلاوجہ شمع علم وعرفان سے محروم نہ رہے۔ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا آغاز ہے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 12 لاکھ فلاح و بہبود کے ادارے سرگرم عمل ہیں۔پاکستان میں بھی ایسے ادارے ہیں جو معاشرے کے محروم کمزور اور پسے ہوئے طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے کام کررہے ہیں۔ پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں نوجوانوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے لیکن کچھ نوجوان معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے کام کررہے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ نوجوانوں کی کثیر تعداد رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ۔ اپنے علاقے کے مسائل کی نشاندہی کریں۔ اپنے فارغ وقت میں دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔
پاکستان بھر کے مختلف علاقوں میں رضاکاروں کے کئی ایسے گروپ ہیں جو کسی سرکاری مدد کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت مستحق لوگوں مدد کر رہے ہیں، مثلاَ۔ غریب بچوں کو پڑھانا، لوگوں کو راشن پہنچانا،طبی امداد کرنا، غریب لڑکیوں کی شادی میں مالی معاونت کرنے سمیت بہت سے فلاحی کام کر رہے ہیں۔ اور ایسے نوجوان بھی ہیں جو اپنا فارغ وقت فیس بک استعمال کرنے، اسٹیٹس لگانے، ٹک ٹاک پر ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے میں ضائع کررہےہیں۔ اپنے شوق کی تسکین ضرور کریں، مگر اپنے قیمتی وقت کو کارآمد بنانے کے لئے سماجی و فلاحی کاموں کے ذریعے انسانیت کی خدمت بھی کریں۔
اپنے آپ سے سوال کیجئے کہ لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانےکے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں، جنہیں انجام دے کر آپ بہت زیادہ نہیں تو کچھ تو اُن کی اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں ۔ غریب نادار بچوں کو مفت کتابیں فراہم کرکے، کسی بیمار کے لئے ادویات فراہم کرکے، خون کا عطیہ اورراشن دے کرخود کو کتنا پرسکون محسوس کریں گے،اُس کا احساس اُسی وقت ہوگا جب آپ یہ سب کچھ کریں گے۔
معذور، ضعیف العمر اور حالات کے ستائے لوگ بھی ہمدردی اور توجہ کے مستحق ہیں، اُن کی دلجوئی کریں، اپنے خاندان کے بزرگوں کے ساتھ کچھ وقت ضرور گزاریں، ان کے تجربوں سے یقینی طور پر فائدہ ہو گا ۔ اس کے علاوہ اپنی گلی محلے اوراپنےارد گرد کے بے راہ رو نوجوانوں کوصحیح راستے کی طرف گامزن کریں،انہیں اپنے ساتھ فلاحی کاموں میں شریک کریں۔اُن میں جذبہ حب الوطنی بیدار کریں۔ ضرورت اس امرکی ہےکہ نوجوان طالب علم اپنے علم سے تاریک راہوں کو روشن کریں۔ کسی فلاسفر نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ہمارے الفاظ ہی امید کے چراغ روشن کرتے ہیں‘‘۔اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا بلکہ خوشبو کی طرح ماحول کو معطر کر دیتے ہیں۔
اگر مالی اعانت نہیں کر سکتے تو میٹھی باتوں سے پریشان لوگوں کی داد رسی کریں ، اپنے وقت، علم، ذہانت اور اپنے ٹیلنٹ سے دوسروں کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور کر یں۔ جب آپ اپنا ذہن بنا لیں کہ آپ نے خدمت گزار بننا ہے تو آپ کے ذہن میں یقیناً مختلف خیالات آنے لگیں گے، پھران خیالات پر آسانی سے عمل کر سکیں گے۔ اگر ہفتے میں دو تین گھنٹے بھی بھلائی کے کاموں کے لئے نکال لیں تو معاشرے میں کئی اچھی تبدیلیاں لا ئی جا سکتی ہیں۔ اگر آپ انفرادی طور پر فلاحی کام کرنے سے قاصر ہیں تو مختلف نوجوانوں پر مشتمل گروپس بنائیں۔ فارغ اوقات میں سماجی اور فلاحی مسائل کے حل کے لئے مل کر کام کر سکتے ہیں۔
رضا کارانہ سرگرمیاں ملازمت کے حصول اور کیریئر میں ترقی کے لئے آسانی پیدا کرتی ہیں۔ ملازمتوں کے لئے لیڈر شپ، ٹیم ورک مؤثر ابلاغ، نیا قدم اٹھانے کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ فلاحی اور سماجی کام کرنے سے ہماری یہ خوبیاں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔ وہ نوجوان بہت قابل فخر ہیں جو اپنی سی وی، اپنے پروفائل میں معاشرے کے محروم طبقے کی بھلائی اور فلاح و بہبود کے لئے اپنے کاموں کا ذکر فخریہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
ایسے نوجوانوں کو ترجیحی بنیاد پر روزگار فراہم کرنا چاہیے۔ یہ نوجوان محنتی اورباصلاحیت ہوتے ہیں، خاص طور پر، محب وطن دردِ دل رکھنے والے اور معاشی طور پر غیر مستحکم ہوتے ہیں لیکن کچھ کرنے کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اگر یہ برسر روزگار ہوں گے تو معاشی طور پر دوسروں کی مدد کرنے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔
فلاحی کام کرنے سے وقار بلند اور عزت نفس میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی مستحق فرد کی مدد کرنے سے دلی سکون ملتا ہے۔ یہ کام صدقہ جاریہ اور غریب و نادار افراد کی دعائوں کا وسیلہ ہوتے ہیں۔ ذہنی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے، کسی بھی قسم کے ذہنی دبائو کا شکار نہیں ہوتے۔
دوسروں کے لئے کام کرنے سےخود اپنی ذات کو بھی فائدہ ہو رہا ہوتا ہےمثلاً اگرکسی کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں تو درحقیقت آپ خود بھی سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے علم میں مزید اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک سماجی کارکن کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس کام کا آغاز کرے، اسے دل جمعی اور لگن سے انجام دے، بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ وقتی جوش کے تحت کسی کام کا آغاز تو کر لیا جاتا ہے۔
لیکن راستے کی مشکلات اور رکاوٹوں کے سبب پہلے ہی مرحلہ میں مایوس ہو کر ہمت ہار دیتے ہیں۔ کام کے آغاز سے قبل اس کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیں، اس کے بعد جب کام کا آغاز کریں تو پھر اسے استقامت، تحمل و برداشت اور بردباری کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ کسی بھی کام کی انجام دہی کے لئے باہمی مشاورت کو لازم ٹھہرائیں اور پھرحکمت و تدبر کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ غرور تکبر، نمود و نمائش، مزاج کی بے اعتدالی اور تنگ دلی سے اجتناب کریں۔
معاشرے میں پھیلی بے شمار خرابیوں میں ایک بڑی خرابی رشوت اور کرپشن ہے جو آج کل اپنے عروج پر ہے نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کو کرپشن سے نجات دلانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے اور لوگوں میں آگاہی مہم کے لئے سیمینارز اور کانفرنسوں کا انعقاد کریں۔ کہتے ہیں کہ عزم و حوصلہ بلند اور چٹان کی طرح مضبوط ہو تو کامیابی ضرور قدم چومتی ہے۔ایک اچھا سماجی کارکن نوجوان اچھا سیاست دان بھی بن سکتا ہے، کیونکہ اسے عوامی مسائل کا گہرا مشاہدہ ہوتا ہے ایوان بالا میں سماجی ورکر نوجوانوں کا بڑی تعداد میں پہنچنا عام مسائل سے دوچار افراد کی نمائندگی اور ان کی آواز بن سکتا ہے۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔