وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 4 روز قبل ایک ہنگامی اور اہم پریس کانفرنس میں وفاقی حکومت کی طرف سے روٹیشن پالیسی کے تحت سندھ کے افسران کے اسلام آباد یا دیگر صوبوں میں تبادلوں کے احکامات پر وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو وارننگ دی کہ وہ وفاقی حکومت کی سیاست میں نہ آئیں اور صوبے میں گریڈ 20کے افسران کی کمی کے باوجود انہیں سندھ بدر کرنے سے باز رہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے یہ بھی کہا کہ وہ کسی افسر کو چارج چھوڑنے کی اجازت نہیں دینگے جبکہ یہاں تک کہ انہوں نے سندھ کابینہ سے ان افسران کو جو روٹیشن پالیسی کے تحت ٹرانسفر کئے گئے ہیں کو ریلیو نہ کرنے کے فیصلے کی منظوری بھی لےلی۔
ویسے دیکھا جائے تو سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک ہوتا ہے جس کی وجہ شاید پیپلز پارٹی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کا چیف سیکرٹری وزیر اعلیٰ کی مرضی کے بغیر تبدیل نہیں ہوتا جبکہ سندھ میں ایسا نہیں۔ وہاں جب وفاق چاہے چیف سیکرٹری اور آئی جی بدل دیتا ہے۔
شاید سب کو یاد ہو کہ سابق آئی جی سندھ کلیم امام کے خلاف وزیر اعلیٰ سندھ نے لکھ دیا تھا کہ ان کی خدمات نہیں چاہئیں لیکن وفاقی حکومت نے انہیں زبردستی وہاں تعینات کیا۔وزیر اعلیٰ سندھ نے انہیں امن عامہ کی میٹنگز تک میں بلانا چھوڑ دیا تھا۔ کیا ایسی صورتحال پنجاب یا کے پی میں ہو سکتی ہے ؟ ا سی طرح سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی مثال بھی موجود ہے۔
پنجاب میں اکثر و بیشتر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت ہوتی ہے لیکن سندھ میں لبرل لوگ ہیں اور ان کے تحفظات بھی ہیں، یہ سیاسی طرز عمل بھی ہو سکتا ہے۔ تاریخ کے مطابق ہمارا ملک سنٹرلائزڈ قسم کی سٹیٹ ہے۔ 18ویں ترمیم کے باوجود وفاقی حکومت بہت سے صوبائی معاملوں میں (ASSERT)کرتی ہے جسے صوبائی حکومتیں (INFRINGEMENT)کہتی ہیں۔
مراد علی شاہ کی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو وارننگ سے اس کی صحت پر کیا اثر پڑے گا ؟ صوبہ زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا وفاقی افسروں کو واپس بھیج دے گا لیکن ایسے اقدام سے سندھ حکومت بیٹھ جائیگی۔ 24ویں کامن سے تعلق رکھنے والے حسن نقوی چیئرمین پی اینڈ ڈی سندھ ہیں گزشتہ 25سال سے جب سے سی ایس ایس کرکے افسر بھرتی ہوئے، سندھ میں ہیں۔ آج تک ان کی صوبے سے باہر کہیں پوسٹنگ نہیں ہوئی۔
مراد علی شاہ ان کے بغیر نہیں چلتے وفاقی حکومت نے انکی بھی روٹیشن پالیسی کے تحت سندھ سے ٹرانسفر کر دی ہے۔ اب کوئی افسر جو صوبے کا نہیں بلکہ وفاقی حکومت کا ملازم ہو 25سال بعد بھی کہے کہ اسے ایک یا 2 سال کیلئے صوبہ بدر کیوں کیا جا رہا ہے تو پھر انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ فیڈرل حکومت کے ملازمین کےمتعلق پالیسی تو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے (PURVIEW)میں آتی ہے وہ اپنے افسروں کو واپس بلائیں یا صوبے میں بھیجیں یہ ان کا اختیار ہے۔ روٹیشن پالیسی پر عملدرآمد کروانے کا یہ مطلب نہیں کہ کسی صوبے کے حقوق سلب کئے جا رہے ہیں۔
روٹیشن پالیسی سندھ Centric نہیں۔ پنجاب سے سارا اسلم، سیکرٹری خزانہ افتخار سہو، علی طاہر اور کمشنر سرگودھا فرح مسعود کو روٹیشن پالیسی کے تحت ٹرانسفر کیا گیا ہے۔
اس پالیسی کے تحت خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور پنجاب سے لوگ نکالے گئے ہیں لیکن سندھ حکومت کچھ زیادہ محسوس کر رہی ہے۔ خیر ان کے تحفظات بھی اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں۔
پنجاب سے روٹیشن پالیسی کے تحت آر پی او ملتان سید خرم شاہ کا تبادلہ فی الحال رک گیا ہے میرے علم کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے حالیہ دورہ ملتان میں آر پی او بھی انہیں ریسیو کرنے والوں میں تھے جہاں انہوں نے وزیراعلیٰ سے درخواست کی کہ وہ ابھی ملتان میں ہی کام کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد ان کا تبادلہ فی الحال روک دیا گیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر آر پی او ملتان کا تبادلہ وقتی طور پر رک سکتا ہے تو سیکرٹری خزانہ پنجاب افتخار سہو تو سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اس لئے وہ بھی شاید اپنا تبادلہ رکوانے میں کامیاب ہو جائیں۔لگ رہا ہے کہ افتخار سہو اور کمشنر سرگودھا فرح مسعود کا تبادلہ رک سکتا ہے لیکن یہ بات تو کنفرم ہے کہ پنجاب سے روٹیشن پالیسی کے تحت حالیہ تبادلوں میں کسی ڈی ایم جی افسر نےابھی تک اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے احکامات پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا۔
اب سوال یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ پنجاب کے ان افسران کو روٹیشن پالیسی کے تحت یہاں سے بھیجا جائے گا یا نہیں۔ پنجاب ویسے بھی ایک لحاظ سے (TOP HEAVY)صوبہ بن چکا ہے جہاں گریڈ 20کی سیٹوں پر گریڈ 21 کے لوگ تعینات ہیں۔ جس کی وجہ سے گریڈ 20کے افسران گریڈ 21والوں پر بھرے بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں ہم کہاں جائیں پی ایم ایس سروس والے الگ کہتے ہیں ہم کہاں جائیں کیونکہ افسر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بیوروکریسی بھی اس میں گیم پلے کر رہی ہے کیونکہ جو بیوروکریٹ صوبے کے لئے ’’ناگزیر‘‘ ہو چکے ہیں وہ وزیر اعلیٰ اور وزر اعظم تک رسائی حاصل کرکے اپنی خواہش کے مطابق پوسٹنگ اور ٹرانسفر کو (MANAGE)کر لیتے ہیں یہاں پر ایک اور انتہائی اہم بات پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ سنٹرل سلیکشن بورڈ نے گریڈ20 سے 21 میں ترقی کیلئے جن چند افسران کے نام بھیجے ہیں وزیر اعظم آفس نے بورڈ کو اپنی سفارشات کا ازسر نو جائزہ لینے کا کہا ہے اگر ایسا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ جن افسروں کو (INTEGRITY)اور کارکردگی ہونے کے باوجود ڈیفر کر دیا گیا ان کی ترقی کیلئے بورڈ اپنی سفارشات کا از سر نو جائزہ لے۔
قانون کے مطابق سنٹرل سلیکشن بورڈ ترقیوں کیلئے جو فائنل لسٹ جاری کرے اس کا ریویو نہیں کر سکتا قانون کے مطابق اگر دوبارہ جائزہ لینا مقصود ہو تو نئے سرے سے سنٹرل سلیکشن بورڈ کا اجلاس بلایا جاتا ہے اور دوبارہ ترقیوں کی سفارشات مرتب کی جاتی ہیں، سنا ہے کہ سنٹرل سلیکشن بورڈکا اجلاس دوبارہ اگلے ماہ دسمبر میں ہو رہا ہے۔ پچھلا بورڈ حال ہی میں 28سے 30ستمبر تک جاری رہا ہے۔
گریڈ 21 سے 22 میں ترقیوں کیلئے ہائی پاورڈ بورڈ رواںسال مارچ میں متوقع تھا جس کا تاحال کوئی پتہ نہیں کہ کب تک ہو گا؟ یہاں ایک بڑا باریک نقطہ بتانا چاہوں گا کہ گریڈ 20سے 21 میں ترقیوں کیلئے اچھی شہرت اور کام کرنے والے لوگوں کو ڈیفر کر دیا گیا اور صرف چند کو ترقیاں دی گئیں۔ حکومت کو شاید علم ہے یا نہیں لیکن بے جا ترقیاں روک کر حکومت بیوروکریسی کو اپنے خلاف کر رہی ہے۔
حکومت کو یہ علم ہونا چاہئے کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں بیوروکریسی کے سر پر حکومت کی اور ایسے نشانات چھوڑے جس پر عوام آج بھی ان کے ترقیاتی منصوبوں کو یاد کرتے ہیں۔
قابل اور اچھی شہرت کے حامل افسران کی ترقیاں روک کر حکومت اپنا نقصان کرسکتی ہے کیونکہ بیوروکریسی ایک حد تک الیکشن نتائج کو کنٹرول کرتی ہے ، اس حقیقت کا حکومت سمیت سب کو بخوبی علم ہے۔