• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کے نوجوان فکرمند ہیں کہ ایسا کیا کریں کہ آنے والا وقت ان کی زندگی کے لیے بہترین ثابت ہو۔ مستقبل کا معاملہ ان کے لیے سب سے زیادہ پریشان کُن ہوتا ہے۔ کسی کو فکرِ معاش نے پریشان کر رکھا ہے تو کوئی قسمت سے نالاں نظر آتا ہے۔ کہیں خاندانی جھگڑے ہیں، تو کہیں گھریلو مسائل۔ کوئی غیروں کی بے اعتنائی سے دل شکستہ ہے، تو کوئی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگا ہواہے، تو کوئی حسد کی آگ میں جل رہا ہے۔ جب مشکلات اور سختیاں آتی ہیں، تواکثر نوجوان ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ 

خیالات اور حالات کا دباؤ اُن کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بے نیاز کردیتا ہے۔وہ یہ غور نہیں کرتے کہ ناکامی سے ہی تعمیر کا سفر ممکن ہوتا ہے۔ تعمیر سے تعمیر تک کا آسان سفر تو ہر کوئی کرسکتا ہے ۔اسی تناظر میں ایک سبق آموز واقعہ ملاحظہ کریں۔ شاید وہ نوجوان کو جو دکھی اور پریشان ہیں اس کو پڑھنے سے انہیں ہمت و حوصلہ ملے۔

ایک نوجوان اپنی زندگی کے معاملات سے کافی پریشان تھا۔ اپنے خیالات کی گتھیوں میں اُلجھا وہ انجانے راستے پر چلا جا رہا تھا کہ اُس کی ملاقات ایک درویش سے ہوئی تو اس سے رہا نہ گیا اور اُس نےاپنا حال اُن سے کہہ سنایا ۔ میں بہت پریشان ہوں۔ دکھ اور پریشانیاں اب میری برداشت سے باہر ہوتی جارہی ہیں ۔ لگتا ہے شاید موت ہی مجھے ان غموں سے نجات دلا سکتی ہے۔

درویش نے اُس کا تمام احوال غور سے سُنے کے بعد کہا کہ،’’ جاؤ نمک اور ایک پانی سے بھرا گلاس لے کر آؤ۔‘‘

نوجوان بڑا حیران ہوا ، اُس نے سوچا کہ میرے دکھ اور پریشانیوں کا نمک سے کیا تعلق۔ لیکن درویش نے کہا تھا ،اس لیے وہ نمک اور پانی سے بھرا گلاس لے آیا ۔

درویش نے کہا،’’پانی کے گلاس میں ایک مٹھی نمک ڈالو اور اسے پی لو۔ ‘‘

نوجوان نے حیران ہوتے ہوئے نمک ملا پانی پی لیا۔

درویش نے پوچھا ,اس کا ذائقہ کیسا لگا ؟

نوجوان نے کہا،’’بہت ہی خراب، ایک دم کھارا ۔‘‘

درویش مسکراتے ہوئے بولا،’’اب ایک مٹھی نمک لے کر میرے ساتھ اس سامنے والی جھیل تک چلو۔

صاف پانی سے بنی اس جھیل کے سامنے پہنچ کر درویش نے کہا،’’ اب مٹھی بھر نمک پانی میں ڈالو اور پھر اس جھیل کا پانی پیو۔‘‘

نوجوان نے نمک ڈالا اور پھررجھیل سے پانی پیا۔ درویش نے پوچھا، بتاؤ اس کا ذائقہ کیسا ہے، کیا اب بھی تمہیں یہ کھارا لگ رہا ہے ؟ نوجوان بولا،’’نہیں ، یہ تو میٹھا ہے، بہت اچھا ہے۔‘‘

درویش نوجوان کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولے،ہمارے دکھ بالکل اسی نمک کی طرح ہیں ۔ جتنا نمک گلاس میں ڈالا تھا، اتنا ہی جھیل میں ڈالا ہے، مگر گلاس کا پانی کڑوا ہو گیا اور جھیل کے پانی کو مٹھی بھر نمک سے کوئی فرق نہیں پڑا، اسی طرح انسان بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق تکلیفوں کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ جب تمھیں کوئی دکھ ملے تو خود کو بڑا کر لو، گلاس مت بنو بلکہ جھیل بن جاؤ۔

اللہ تعالی کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس لئے ہمیشہ یقین رکھنا چاہیے کہ جتنے بھی دکھ آئیںگے وہ ہماری برداشت سے بڑھ کر نہیں ہوں گے۔ ہمیشہ اس یقین کے ساتھ زندگی گزارئیے کہ آپ کے اردگرد بے شمار خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔ آپ کا کام صرف ان کی کھوج لگانا اور انہیں اپنی جانب راغب کرنا ہے۔ یاد رکھیں! وہی اپنی منزل پر پہنچتے ہیں، جو راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ اپنے خالق کے ساتھ اپنی تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہیے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین