لندن (مرتضیٰ علی شاہ) پرویز مشرف سے اکبر آصف کی ملاقات صرف پاکستان میں مغل اعظم ریلیز کرانے کیلئے تھی اور سرکاری دستاویزات کے مطابق انھوں نے پاکستان میں اس فلم کی ریلیز سے کوئی رقم نہیں کمائی اور اس فلم کی ریلیز کے بعد ہونے والی آمدنی2ارب روپے انھوں نے پاکستان میں آنے والے زلزلے سے متاثر ہونے والوں کی امداد کیلئے عطیہ کردی تھی۔ مغل اعظم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر خان آصف کے بیٹے اکبر آصف کا نام ایک آف شور کمپنی کے ذریعے لندن کے علاقے پارک لین میں 4.2 ملین پونڈ مالیت کے ایک فلیٹ کی خریداری کے حوالے سےحال ہی میں پنڈورا پیپرز میں جنرل شفاعت اللہ شاہ کے ساتھ سامنے آیا تھا۔ میڈیا میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بابا کے نام سے مشہور اکبر آصف نے 2004 میں ڈورچسٹر ہوٹل میں صدر پرویز مشرف کے ساتھ اورپھر مغل اعظم کی ریلیز کے وقت جنرل شفاعت اللہ سے ملاقات کی تھی جبکہ باوثوق ذرائع اور سرکاری کاغذات کے مطابق اکبر آصف نے کبھی جنرل شفاعت اللہ کی اہلیہ فریحہ شاہ سے ملاقات ہی نہیں کی اور ڈورچیسٹر ہوٹل میں پرویز مشرف سے ان کی ملاقات کا سب کو علم تھا اور اس کی فلم بھی بنائی گئی تھی۔ اکبر آصف نے پرویز مشرف سے ملاقات کے دوران پاکستان میں مغل اعظم کی ریلیز کیلئے معاونت کی درخواست کی تھی، اس ملاقات میں انھوں نے مغل اعظم فلم کی تمام ریلیں پرویز مشرف کے سپرد کردی تھیں اور پرویز مشرف نے اپنے عملے کے ارکان کو ہدایت کی تھی کہ وہ پاکستان کے متعلقہ حکام کے ساتھ رابطہ کرائیں۔ اکبر آصف برطانیہ کے سب سے بڑے بحری بیڑے کے چیئرمین ہیں، اس کے علاوہ ان کا لندن اور دبئی میں سونے اور ریئل اسٹیٹ کا بھی کاروبار ہے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں ان کے ریسٹورنٹس بھی ہیں۔ انھیں دولت مشترکہ اور اقوام متحدہ کے عالمی سفیر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ حکومت پاکستان کے سرکاری کاغذات کے مطابق، جو اس رپورٹر کے پاس موجود ہیں، اکبر آصف نے لندن میں ملاقات کے بعد 16 دسمبر 2004 کو پرویز مشرف کو ایک خط لکھا تھا، جس میں انھوں نے پاکستان میں مغل اعظم ریلیز کرنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ اس فلم کی ریلیز سے ہونے والی آمدنی فلاحی مقاصد کیلئے استعمال کی جائے گی۔ اس حوالے سے کلچر ڈویژن نے نوٹ لکھا تھا کہ اس حوالے سے مثالیں موجود ہیں۔ صدر کے اس وقت کے ایڈیشنل سیکرٹری محسن حفیظ نے ماضی کی روایت کے مطابق وزیراعظم سیکریٹریٹ کو اس فلم کو مناسب سرکاری ایجنسی کے زیر انتظام کسی آتھرائز ڈسٹری بیوٹر کے ذریعے ریلیز کرانے کی سفارش کی تھی۔ 5 مئی 2005 کولیفٹینٹ جنرل حامد جاوید نے فلم کا تحفہ پیش کرنے پر ایک خط کے ذریعے اکبر آصف کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نے آپ کے نیک جذبے کی گہری پذیرائی کرتے ہوئے آپ کی یہ فراخدلانہ پیشکش قبول کرلی ہے اور فلم مغل اعظم کی پورے ملک میں نمائش کی اجازت دے دی ہے اور آپ کی خواہش کے مطابق اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بار بار کی آفت سماوی کا شکار ہونے والوں کی امداد پر خرچ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ICIJ کے مطابق جنرل شفاعت اللہ شاہ کی اہلیہ نے برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ طلحہ لمیٹڈ نامی ایک کمپنی کے ذریعے 2007 میں لندن کے پارک لین کے علاقے میں4.2 ملین پونڈ مالیت کا مے فیئر اپارٹمنٹ خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جو مبینہ طورپر اکبر آصف کی ملکیت تھا، جو انھوں نے 2006 میں خریدا تھا اور اس کے اگلے سال ہی فریحہ شاہ کے نام اس کی ملکیت منتقل کردی گئی۔ فریحہ شاہ نے ICIJ کو بتایا تھا کہ ا نھوں نے یہ فلیٹ ایک سابق فوجی ساتھی کے ذریعے خریدا تھا جو اس زمانے میں لندن میں ریئل اسٹیٹ فرمز کے کنسلٹنٹ کے طورپر کام کر رہے تھے اور ان کا آصف اکبر سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اکبر آصف کی پرویز مشرف سے ملاقات کے دوران جنرل شفاعت موجود تھے لیکن ان کا اکبر آصف سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان واپسی کے بعد پرویز مشرف نے اکبر آصف سے فلم کی ریلیز کے حوالے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی تھی، جس وقت پاکستان میں مغل اعظم ریلیز کی گئی 2005 میں خوفناک زلزلے نے کشمیر اور پاکستان میں شدید تباہی مچا دی۔ اس پر اکبر آصف نے پرویز مشرف کو خط لکھ کر فلم کی تمام آمدنی زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے عطیہ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ جس کے بعد فلم سے ہونے والی کم وبیش 2 ارب روپے کی آمدنی سیلاب زدگان کی امدا د کیلئے کام کرنے والی فلاحی تنظیموں کو دیدی گئی تھی۔ سرکاری طورپر اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ فلم سے ہونے والی آمدنی فلاحی مقاصد کیلئے دی گئی تھی۔