ملک میں عام انتخابات کے معین عرصے میں ابھی لگ بھگ ڈیڑھ سال کا عرصہ پڑا ہے لیکن ایک مرتبہ پھر قبل ازوقت انتخابات کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں اور یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کیونکہ اس سے قبل بھی ملکی صورتحال کے پیش نظر اس طرح کے امکانات پر مبنی خبریں آتی رہیں ہیں۔ اپوزیشن تو بہرحال کافی عرصے سے موجودہ حکومت نئے انتخابات کرانے کیلئے دبائو ڈال رہی ہے اور اس مقصد کیلئے وہ متعدد جواز بھی پیش کرتی ہے جس میں الیکشن کے نتائج کو مسترد اور دھاندلی کے ذریعے حکومت کو ناجائز اور جعلی حکومت قرار دینا شامل ہے۔
تاہم اس مرتبہ ان قیاس آرائیوں کا آغاز بعض ذرائع سے میڈیا میں آنے والی ان خبروں سے ہوا جن میں کہا گیا تھا کہ ’’ وزیراعظم عنقریب عوامی جلسوں سے خطاب کریں گے‘‘ اب اگر سیاسی اور دیگر حلقوں میں اس اعلان سے یہ مطلب اخذ کیا جاتا ہے کہ حکومت غیر اعلانیہ طور پر قبل ازوقت انتخابات کی تیاریاں کر رہی ہے تو اسے غلط بھی نہیں کہا جاسکتا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کیلئے موجودہ صورتحال جس میں وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت کی سب سے بڑی اور موثر اپوزیشن ملک میں ہونے والی مہنگائی ہے جو ان سے اور ان کی حکومت سے زیادہ طاقتور ہے اور خود وزیراعظم اس کا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بتدریج بڑھتی اور بدلتی ہوئی محاذ آرائی جس میں اب اصلی اور نقلی آڈیو، وڈیو کے ذریعے فریقین ایک دوسرے پر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے الزامات عائد کر رہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ پر حکومت اور اپوزیشن اپنے اپنے موقف پر پرعزم ہیں تین سال کے طویل عرصے میں ابھی تک وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ بھی براہ راست بالمشافہ اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے ملاقات، مشاورت یا مذاکرات نہیں کئے اس بحرانی صورتحال میں اگر انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو کیا شکست کھانے والا فریق اپنے حریف کی کامیابی کو تسلیم کرے گا؟ اس صورت میں تو الیکشن کا پرامن ہونا ہی ایک معجزہ دکھائی دیتا ہے اور ایسے حالات میں الیکشن کا عمل ملک میں جمہوریت کیلئے بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
اس لئے الیکشن قبل از وقت ہوں یا معینہ وقت پر صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر تمام متنازعہ امور پر باہم افہام و تفہیم سے اتفاق رائے حاصل کریں، تلخیاں، رنجشیں، اختلافات جو بحران کی شکل اختیار کر رہے ہیں انہیں ختم کرکے ایک خوشگوار فضا میں آزاد انتخابات کا ماحول پیدا کریں۔ گزشتہ سال ستمبر کو پاکستان پیپلزپارٹی کی میزبانی میں اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیخلاف اور وزیراعظم عمران خان کو اس موقف کی بنیاد پر کہ وہ غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے وزیراعظم بنے ہیں ہٹانے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کا فیصلہ ہوا اس مقصد کیلئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام عمل میں لایا گیا اور اتفاق رائے سے مولانا فضل الرحمان کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا جنہوں نے اس موقع پر پی ڈی ایم کے قیام کے حوالے سے ایک 26نکاتی قرارداد پڑھ کر سنائی اور بتایا کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں متفقہ طور پر عمران خان کے فوری استعفے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
اس موقع پرسابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی ان کی تائید کرتے ہوئے وڈیولنک پر خطاب کیا تھا۔حکومت مخالف جماعتوں کا اس پہلے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تشکیل کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول میں اس کی کامیابی کے عملی نتائج نہ ہونے کے برابر ہیں اس کے برعکس اتنا ضرور ہوا کہ اس عرصے میں اتحاد کی دو جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پی ڈی ایم کو داغ مفارقت دے گئیں اور اب پاکستان مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام ہی دو بڑی جماعتیں اس اتحاد کا اہم حوالہ ہیں پاکستان پیپلزپارٹی پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ ن کے بعد وہ بڑی جماعت تھی جس کی صوبہ سندھ میں حکومت بھی ہے اور پارلیمانی ایوانوں میں واضح نمائندگی بھی جس کی علیحدگی سے پی ڈی ایم کے مقاصد اور حکومت مخالف سیاسی عزائم کو نقصان پہنچا ہے لیکن اب موجودہ اور آنے والی صورتحال میں اس اتحاد کیلئے زیادہ تشویش اور فکرمندی کی بات یہ ہے کہ کیا اتحاد کی موجودہ شکل بھی برقرار رہتی ہے یا نہیں اور یہ تشویش اور فکرمندی بلاوجہ نہیں بلکہ اس کے تناظر میں کئی اہم واقعات اور محرکات ہیں۔
یوں تو پی ڈی ایم نے تمام سال ہی حکومت کیخلاف چھوٹے بڑے جلسے جلوس ریلیاں اور مختلف اجتماعات جاری رکھے ہیں تاہم اگر ایک سال کے دوران حکومت کیخلاف غیر معمولی طور پر اہم،موثر اور تعداد کے اعتبار سے سب سے بڑے اجتماع کی بات کی جائے تو وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا کراچی سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور اسلام آباد میں سیاسی تاریخ کا ایک بڑا دھرنہ تھا جو۔۔دن جاری رہا جس میں مولانا فضل الرحمان پوری قوت کے ساتھ حکومت کے سامنے آئے تھے لیکن مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے جس کی ذمہ داری ان کے رفقا دوسری جماعتوں کے عدم تعاون پر ڈالتے ہیں۔
جنہوں نے اس موقع پر دوعملی سے کام لیا اور پھر دھرنا ختم کرانے کیلئے جن سیاسی اور غیرسیاسی قوتوں نے جس انداز میں کردار ادا کیا اس پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں اس کے بعد سے اب تک کی صورتحال میں کئی اتار چڑھائو آئے جن کی تفصیلات طویل ہے البتہ کئی مواقعوں پر ایسا محسوس ہوا کہ مولانا یا تو تنہا ہو گئے ہیں یا پھر انہیں تنہا کر دیا گیا ہے اس لئے انہوں نے غیر اعلانیہ طور پر اور غیر محسوس طریقے سے پی ڈی ایم میں شامل بعض جماعتوں پر انحصار خاصہ کم کر دیا تھا جس کے بعد انہوں نے بڑی جماعتوں کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی کہ وہ ’’سولو فلائٹ‘‘کے بھی اہل ہیں اور حال ہی میں انہوں نے لاڑکانہ میں جو جلسہ عام کیا تھا اس کی حاضری سے انہوں نے اس بات کو ثابت بھی کر دیا ہے کہ وہ بالخصوص تعداد کے حوالے سے کسی دوسری جماعت کے محتاج نہیں بہرحال موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ لانگ مارچ ضرور ہو لیکن اس کے دورانئے کا تعین پہلے سے ہی کر لیا جائے کہ لانگ مارچ یا دھرنا کتنے دن جاری رہے گا کیونکہ غیرمعینہ مدت تک جاری رہنےوالی کسی بھی تحریک کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
لیکن مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ صرف دھرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا تاہم اگر دھرنے اور لانگ مارچ کے ساتھ قومی اسمبلی کے ارکین کے استعفے بھی پیش کئے جائیں تو مطلوبہ ہدف حاصل ہونے کاقوی امکان ہے اگر متحدہ اپوزیشن کی جماعتیں استعفے دینے پر آمادہ ہو جائیں تو کم و بیش 100کے لگ بھگ ارکان ایوانوں سےباہر آ جائیں گے اور موجودہ حالات میں ان کی نشستوں پر انتخابات کرانے ناممکن ہیں اس طرح حکومت بحران کا شکار ہو جائے گی ۔