اسلام آباد (نمائندہ جنگ)سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کی ماتحت ضلعی عدلیہ میں مبینہ طور پر غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کوصوبہ بھر کی ضلعی عدلیہ میں بھرتیوں کے عمل سے متعلق جامع رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے بھرتی ہونیوالے امیدواروں کو دی گئی رعایتیں قانون کے مطابق بھی ہیں یا نہیں؟دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے ریما رکس دیئے ہیں کہ ہائیکورٹ کے زیر انتظام بھرتیوں میں شفافیت ہونی چاہئے،اگرمجاز اتھارٹی کے اقدامات منصفانہ ہیں اور بھرتیوں کا عمل جائز اور شفاف ہے تو ٹھیک ہے، چیف جسٹس قانون اور قواعد کے پابند ہیں اور قانون سے بالاتر نہیں ہیں، بتایا جائے کہ بھرتیوں کا عمل قانون کے مطابق ہواہے یا نہیں؟جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں قانون میں حاصل صوابدیدی اختیار جائز اور منصفانہ طور پر استعمال ہو، ہمارے ادارے کی ذمہ داری ہے کہ قانون کے مطابق چلے، جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجا زالاحسن اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو عدالت کے نوٹس پر رجسٹرار ہائیکورٹ عبدالرزاق سمو ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں شکایات ملی ہیں کہ سندھ کی ضلعی عدلیہ میں رشتہ داروں کو نوازنے کیلئے قواعد نرم کئے گئے ہیں، گریڈ سولہ کی اسامیوں کی بھرتی انٹر ویوز کے ذریعے ہوئی ہے حالانکہ اسٹینو گرافرز کیلئے اسکریننگ ٹیسٹ لازمی ہوتا ہے، ڈومیسائل میں بھی رعایت دی گئی ہے ،کیا کراچی غربی میں مطلوبہ اہلیت کا ایک بھی امیدوار دستیاب نہیں تھا؟آج کے دور میں تو بچے بھی ٹائپنگ کرسکتے ہیں، کیا کراچی میں ایک بھی شخص ٹائپنگ نہیں جانتا تھا؟ جس پر رجسٹرار ہائی کورٹ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ قواعد میں رعایت دینا کوئی آج کی بات نہیں ہے، زیر غور کیس میں مجاز افسران نے چیف جسٹس کو قواعد میں نرمی کی سفارش کی تھی، ان کا کہنا تھا کہ ضلع دادو میں پانچ رشتہ داروں کو عمر میں رعایت دے کر بھرتی کرنے کا الزام ہے، لیکن مذکورہ ضلع میں مجموعی طور پر 27بھرتیاں ہوئی ہیں جن میں سے سات کو عمر کی زیادہ سے زیادہ حد میں رعایت دی گئی تھی۔