• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شبانہ ایاز

جب بھی کسی معاشرے میں جرائم کی شرح بڑھتی ہے تو لوگوں میں عدم تحفظ اور بے چینی جیسی کیفیات میں اضافہ ہوتا ہے، ایک تحقیق کے مطابق جرائم کی سب سے بڑی وجہ معاشی بدحالی یعنی غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور مہنگائی ہیں۔ جس کے اثرات نوجوانوں پر کچھ زیادہ ہی پڑے۔ اُن میں منفی سرگرمیاں عام ہونے لگیں تو قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ آج کل روزانہ ہی پاکستان کے گلی کوچوں میں لوگوں کو راہ چلتے نقدی، موبائل فونز، موٹرسائیکل اور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ چھینی یا چوری شدہ اشیاء کوڑیوں کے مول بیچ دی جاتی ہیں۔

اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں قیمتی سامان سے محروم ہونے والے شہریوں کو اپنے نقصان کا دکھ تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوجاتا ہے، لیکن زندگی سے محروم ہونے والے افراد کے اہل خانہ تمام عمر اپنے پیاروں کے غم میں مبتلا رہتے ہیں، جبکہ ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں معذوری کا شکار ہونے والے زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق ہونے والی ڈکیتیوں، راہ زنی اور اسٹریٹ کرائمز میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ 

 وہ بے روزگاری سے تنگ آکر چوری، ڈاکہ، قتل، اسمگلنگ، منشیات اور دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ہوتے جارہے ہیں۔ جرائم کے مختلف واقعات میں ملوث ملزمان کی اکثریت ٹین ایج پر مشتمل ہے۔ معاشی ناانصافیوں کے شکار نوجوان اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے جرائم کے راستے پر چل پڑے ہیں یعنی مسقتبل کے معمار مجرم بن گئے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ کہتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر پائیدار نقش اسی قوم نے چھوڑا ہے ،جس نے اپنی آنے والی نسل کی فکر کی ۔

بہت سے نوجوان مشکل حالات میں بھی کسی نہ کسی طرح اعلی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بے روزگاری کے سبب ان کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ سو وہ اپنے حالات سے دلبرداشتہ ہوکر غیر قانونی طریقوں سے اپنی ضروریات پوری کرنے لگتے ہیں، جس کی منہ بولتی تصویریں آئے دن اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں۔ جب مہنگائی کی وجہ سے آمدنی و اخراجات میں توازن نہ رہے تو انسان جائز و ناجائز ذرائع آمدن کے فرق کو مٹا دیتا ہے اور جب حق پر ہوتے ہوئے بھی انصاف نہ ملے تو غلط راہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے،یوں جرائم کا مرتکب ہوجاتا ہے ۔

ارسطو نے کہا تھا کہ، "غربت انقلاب اور جرم کی ماں ہے۔‘‘

صرف دو روٹیوں اور سالن کی ایک پلیٹ کی جزوقتی فراہمی، یا سال میں ایک یا دو مرتبہ چند ہزار روپے فی خاندان بانٹ دینے سے بھلا غربت کا عفریت کہاں ٹلتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اول تو مواقع دستیاب نہیں، اگر ہیں تو صلاحیتوں کے مطابق معاوضہ نہیں ، تعلیم ہے تو نوکری نہیں، نو کری ہے توکوئی مستقبل نہیں۔ کام زیادہ لیا جاتا اور پیسے کم دیے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہر کوئی آسان ذرائع اور شارٹ کٹ طریقے سے پیسہ کمارہا ہے، ایسے میں اہل اور ضرورت مند نوجوانوں کا کردار انتہائی محدود ہوکر رہ گیا ہے، جس نے ان کی مایوسی میں اضافہ کر دیا ہے، جس کے بھیانک نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں، جس کے ثمرات میں جرائم کی شرح میں اضافہ شامل ہے۔انسانی تاریخ کی اس سے بڑی بدقسمتی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی کہ آج کا تعلیم یافتہ طبقہ کام کرنے کے لئے تیار ہے لیکن ہمارا نظام اس طبقے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے قابل نہیں ۔

خط غربت سے نیچے رہنے والے نوجوان جہاں معاشرے میں تعلیم کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی معاشرتی برائیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں،وہیں انہیں غربت مٹانے کی خواہش جرائم کی ایسی دلدل میں دھکیل دیتی ہے، جہاں سے انسان عادی مجرم کا روپ دھار لیتا ہےاور اتنا بے حس ہو جاتا ہے کہ نیکی اور بدی کی پہچان کھو دیتا ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں میں جرائم کے اسباب میں کچھ عدم برداشت کا بھی عمل دخل ہے۔ جب اُن کے مزاج کے خلاف کوئی کام ہو یا کسی سے کوئی تکلیف پہنچ جائے تو قوت برداشت کی کمی کی وجہ سےوہ اس سے انتقام لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اسلام کا دیا سبق جو کہ تحمل، برداشت اور بردباری کا ہے اسے بھول جاتے ہیں۔

آج کا نوجوان معاشرتی طبقاتی فرق میں اس قدر الجھ کر رہ گیا ہے کہ صیح غلط کی تمیز بھول بیٹھا ہے۔ معاشرے میں جرائم کی زیادتی اور ان کے سد باب کے لئے سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی اور جرائم کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو جرائم کی شدت میں اضافہ ہو تا رہے گا، معاشرتی بگاڑ ، اخلاقی اقدار کی پامالی، بدامنی، معاشرتی تصادم کی زیادتی، اجتماعی ترقی میں رکاوٹ، زندگی میں گھٹن کا احساس، فتنہ اور قتل و غارت گری بڑھ جائے گی ۔

جزا وسزا کے عمل کے سست ہونے کی وجہ سے بھی ہمارے نوجوانوں کی اکثریت مختلف قسم کے جرائم سے وابستہ ہو رہی ہے۔ قلم و کتاب کی بجائے اسلحہ کے زور پر اپنے مسائل کے حل اور خوابوں کی تعبیر تلاش کر رہے ہیں۔جس معاشرے میں ظالم طاقت ور ہو، ناانصافی کا بول بالا ہو، طاقت ور کمزور پر حاوی ہو، ہر جگہ جھوٹ اور بے ایمانی کا راج ، دھو کے کا بازار گرم ہو تو کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ وہاں کی نسلِ نو مثبت راہ پر چل سکتی ہے، کس طرح ترقی کی منازل طے کرے گی۔

نوجوانوں میں جرائم کی ایک بڑی وجہ مادہ پرستی بھی ہے۔جب تعلیم یافتہ نوجوان، اشرافیہ کی اولاد کو قیمتی گاڑیوں میں بے دھڑک سفر کرتے دیکھتے ہیں تو فطری طور پر ان کے دلوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے۔ کہ وہ بھی شان و شوکت کی زندگی گزاریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل مجرم وہ طبقاتی معاشرہ ہے، جو ایک جانب صاحب حیثیت افراد کو عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے سارے مواقعے فراہم کرتا ہے، دوسری جانب غریب طبقات کے اہل نوجوانوں کو غربت کی تاریکیوں میں دھکیل دیتا ہے۔ 

اصل میں مجرم تو نامنصفانہ نظام ہے جو نااہلوں اور کرپٹ لوگوں کو عوام کی محنت کی کمائی کا مالک بنا دیتا ہے۔ محرومیوں کے شکار ان نوجوانوں کی اصلاح، گرفتاریوں اور سزاؤں سے ممکن نہیں بلکہ اس طبقاتی نظام کی پیدا کردہ معاشی ناانصافیوں کا خاتمہ ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو معاشی انصاف کون فراہم کرے گا؟ یہ کام اتنا آسان تو نہیں ۔

کسی بھی معاشرے کی کردار سازی کی ذمہ داری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد پر عائد ہوتی ہے۔جرائم میں ملوث برے لوگوں کے ساتھ اچھے لوگ بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اچھے لوگوں کی خاموشی ان لوگوں کو مزید مضبوط کرتی جاتی ہے، یہاں تک کہ جرائم کو روکنا ناممکن ہو جاتا ہے ہر ایک کو معاشرے کی کردار سازی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، تاکہ نسل نو کو ایک اچھا ماحول دے سکیں۔

نوجوانوں میں بے روزگاری کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ صنعتوں کو فروغ دیا جائے۔ اس مسئلے کا قلیل المدتی اور کثیر المدتی حل نکالنا ہو گا اور پھر حکومتی مشینری ،خاندان اور معاشرے کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کو نیک نیتی اور خلوص سے اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، تاکہ معاشرے میں جرائم کی شرح بھی کم ہو اور نئی نسل اس ملک کے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے یکسوئی کے ساتھ جدوجہد کر سکے۔

نوجوانوں کو خود بھی خوابوں کی دنیا سے نکل کر عملی دنیا کے تقاضوں پر دھیان دینا چاہیے۔ غربت کا خاتمہ ایک مضبوط اقتصادی پالیسی کا متقاضی ہے۔ روزگار کی فراہمی، مالی وسائل کی فراہمی کے لئے ہنرمند اور فنی تعلیم کا فروغ اور مہنگائی کی روک تھام کے لیے افراط زر کی شرح میں کمی جیسے اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

انچارج صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین