سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے مبینہ بیان حلفی کی خبر پر توہین عدالت کے کیس میں عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگلی سماعت تک اصل بیان حلفی پیش نہ کیاگیا تو فردجرم عائد کی جائےگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مبینہ بیان حلفی کی خبر پر توہین عدالت کے کیس کی سماعت کی۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم مبینہ بیان حلفی کی خبر پر توہین عدالت کے کیس میں ذاتی حیثیت میں عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ان کے وکیل لطیف آفریدی عدالت تاخیر سے پہنچے۔
دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی بھی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی گئی۔
کیس کی سماعت کے آغاز میں وکیل لطیف آفریدی کی آمد سے قبل عدالت نے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ آپ نے اپنا جواب جمع کرایا ہے؟ اس پر رانا شمیم نے بتایا کہ میرے وکیل راستے میں ہیں وہ ابھی پہنچنے والے ہیں۔
عدالت نے رانا شمیم سے سوال کیا کہ آپ کے وکیل کہاں پر ہیں؟، ایسوسی ایٹ وکیل نے جواب میں کہا کہ وہ جی ٹین اشارے پر ہیں ابھی پہنچنے والے ہی ہوں گے۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لطیف آفریدی صاحب کی بہت قربانیاں ہیں وہ اس عدالت کی جانب سے بھی معاون ہوں گے۔
اٹارنی جنرل نے سماعت میں کہا کہ جواب ابھی تک عدالت میں داخل نہیں ہوا ہے، رانا شمیم نے کہا کہ میں نے 4 دن پہلے جواب دے دیا تھا،معاون وکیل نے بتایا کہ وہ جواب عدالت میں لطیف آفریدی صاحب کو جمع کرانا ہے۔
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی بھی اس موقع پر عدالت پہنچ گئے،چیف جسٹس نے لطیف آفریدی کی آمد پر ان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ لطیف صاحب، ویلکم ٹو دس کورٹ۔
چیف جسٹس نے عدالت میں موجود لوگوں سے وکیل لطیف آفریدی سے متعلق سوال کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ان کے پاس یہ سوٹی کیوں ہے؟ یہ رول آف لاء کی نشانی ہے، ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ یہاں آئے ہیں، آپ صرف رانا شمیم کے وکیل نہیں ہوں گے۔
کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے عدالتی معاون فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ خبر شائع کرنے پر مختلف ذمہ داروں کی کیا ذمہ داری ہے؟، چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہم نے صحافت سے متعلق بین الاقوامی معیارات کو بھی دیکھنا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ ریما عمر صاحبہ آئی ہیں؟ ، ان پروسیڈنگ کی ٹرانسپیرنسی کیلئے ریما عمر کو عدالتی معاون بنایا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ججز پریس کانفرنس نہیں کر سکتے، میں دعوے اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں اس عدالت کے ججز کو کوئی اپروچ نہیں کرسکتا، میرے کسی جج نے کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولا، اگر انہوں نے کہیں پر اوریجنل ڈاکومنٹ جمع نہیں کرایا تو وہ عدالت میں پیش کریں، اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ اس عدالت پر عوام کا اعتماد ختم کیا جائے، کوئی آزاد جج یہ عذر پیش نہیں کرسکتا کہ اس پر کوئی دباؤ تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کے قوانین مفاد عامہ کے انٹرسٹ کا تحفظ کرتے ہیں، بیانیے کے ذریعے اس ہائیکورٹ پر دباؤ ڈالا گیا، اخبار نے خبر شائع کر دی کہ جج کو فون کرکے کہا گیا شخصیت کو رہا نہیں کرنا، یہ رائے بنائی گئی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام ججزنے سمجھوتہ کیا ہوا ہے۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ یہ پرائیویٹ ڈاکومنٹ تھا، شائع کرنے کے لیے نہیں رکھا تھا، رانا شمیم نے کہا شائع ہونے کے بعد اس سے رابطہ کیا گیا، جبکہ خبر دینے والے صحافی کا کہنا ہے اس نے خبر شائع ہونے سے پہلے رابطہ کیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ الزام چیف جسٹس پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ اس ہائیکورٹ کےجج کےخلاف ہے، آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سمیت تمام ہائیکورٹ ججز کے خلاف انکوائری شروع ہوجائے؟
رانا شمیم کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ میرے کلائنٹ نے بیان حلفی کے متن سے کوئی انکار نہیں کیا، اس پر اٹارنی جنرل پاکستان نے سوال کیا کہ یہ بتائیں اصل ڈاکومنٹ خود لا رہے ہیں یا پاکستانی سفارتخانے کو دیں گے؟
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پیر تک اصل بیان حلفی پیش نہ کیا گیا تو فرد جرم عائد کی جائے گی جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے اپنے ایک مصدقہ حلف نامے میں اقرار کیا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔