• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی میں 2002ء سے برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی ) کی حکومت کو پہلی بار شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ یہ معاشی بحران دراصل صدر ایردوان کی جانب سے ملک میں مالی پالیسی میں تبدیلی اور خاص طور پر شرح سود میں کمی کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ صدر ایردوان ابتدا ہی سے ملک میں شرح سودکم رکھنے کے حامی رہے ہیں لیکن ملک میں شرح سود ہمیشہ ہی سے بلند رہی اگرچہ اس سلسلے میں صدر ایردوان نے مرکزی بینک کے گورنرز اور وزرائے خزانہ کو بھی کئی بار تبدیل کیا لیکن وہ مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے سے قاصر رہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریہ ترکی اپنے قیام سے لے کر اب تک ہر بیس سال بعد اقتصادی بحران کا شکار رہا ہے اور اب ایک بار پھرمعاشی بحران کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔دنیااگرچہ اسے معاشی بحرا ن کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن جب آپ حقائق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ترکی اس وقت دنیا میں بڑی سرعت سے اقتصادی ترقی کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ آئی ایم ایف، اسٹینڈرڈ اینڈ پورز، موڈیز، آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کے مطابق ترکی 2022-2021ء میں دنیا میں سب سے زیادہ سرعت سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ ترکی کا اس وقت تجارتی حجم گزشتہ سال کے مقابلے میں 27.47 فیصد بڑھتے ہوئے 400 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے اور برآمدات میں نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے250 بلین ڈالر کے لگ بھگ آمدنی حاصل کی جاچکی ہےجبکہ دفاعی صنعت میں ترکی نے پہلے گیارہ ماہ میں دو بلین 80 ملین ڈالر اور سیاحت کے شعبے سے کورونا کی وجہ سے مختلف پابندیاں ہونے کے باوجود بیس بلین ڈالر کی آمدنی حاصل کی جبکہ آئندہ سال 50 ملین سیاحوں کی آمد سے 40 بلین ڈالر کی آمدنی کی توقع ہے۔ کیا یہ ہوتا ہے معاشی بحران؟

تو پھر یکدم بیٹھے بٹھائے ٹرکش لیرا ایک سال کے اندر اندر کیسے اپنی قدر و قیمت پچاس فیصد سے زائد کھو بیٹھا؟ ترکی میں کرنسی کے فلوٹنگ سسٹم ہونےکے باوجود مصنوعی طریقے سے ٹرکش لیرے کی قدرو قیمت کو مستحکم رکھنے کی کوششیں کی گئیں (جیسا کے پاکستان میں نواز شریف کے دور میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیے رکھا ) ٹرکش لیرے کی اصل ویلیو چودہ لیرےکے لگ بھگ تھی لیکن اسے زبردستی آٹھ لیرے تک مصنوعی طریقے سے رکھنے کی کوشش کی گئی تاہم جیسے ہی ترک لیرے پر مزید دبائو آیا تو وہ یہ بوجھ برداشت نہ کرسکا اور اپنی اصلی ویلیو پر آگیا۔ (ماہرین اقتصادیات کے مطابق چھ مہینوں میں اس میں مزید کمی کاامکان ہے ) ایک دیگر وجہ ترک باشندوں کا روزمرہ کی زندگی میں اپنی کرنسی کی بجائے غیر ملکی کرنسی پر اعتماد ہے اور بینکوں سے اپنی رقوم نکلواتے ہوئے اسے ڈالر یا یورو میں کنورٹ کررہے ہیں۔ ترک لیرے کی قدرو قیمت میں کمی کی سب سے اہم وجہ غیر ملکی سرمایہ کار وں کی جانب سے ترکی میں شرح سود کو بلند رکھنے پر اصرار کرنا اور نہ کرنے کی صورت میں اپنی کرنسی کو واپس اپنے ملک لے جانے کی دھمکی بھی دینا ہےجبکہ صدر ایردوان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے دبائو میں آکر ہرگز شرحِ سود کوبلند نہیں کرینگے بلکہ اس میں کمی کرتے رہیں گے۔ سولہ دسمبر کو ایک بار پھر شرح سود میں مزید کمی کی توقع ہے۔

صدر ایردوان نےشرح سود کو کم کرتے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا جوا کھیلا ہے۔ صدر ایردوان اور ان کی حکومت اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکی ہے ( دیر ہی سے سہی ) کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ترکی کو دو نوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کار اپنی غیر ملکی کرنسی کو ٹرکش لیرا میں کنورٹ کرتے ہوئے خاص مدت میں خاص شرح سود سے بڑی بڑی رقوم جمع کرواتے اور یہ رقم پڑے پڑے سال میں بیس سے تیس فیصد تک کا منافع حاصل کرلیتی تھی۔ اردو زبان کا محاورہ ہے ’’ بنیا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے‘‘ بالکل اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کار ترکی کی محبت میں نہیں بلکہ اپنی رقوم بغیر کسی رسک کے چند سال میں دگنی کرنے کے چکر میں جمع کرواتے رہے ہیں۔ اپنی رقوم دگنی کرنے کے بعد یہ غیر ملکی سرمایہ کار ترک بینکوں سے اپنی رقوم نکلوانے کے بعد اسے دوبارہ ڈالر میں کنورٹ کرتے اوریوں دہری رقم اپنے ملک منتقل کرنے کے بعد ترکی میں مصنوعی غیر ملکی کرنسی کی قلت پیدا کردیتے جس سے ترکی میں غیر ملکی کرنسی کی طلب میں بے حد اضافہ ہوجاتا جو ترک لیرے کی قدرو قیمت میں مسلسل کمی کا باعث بنتا۔ صدر ایردوان کے پاس غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اس کھیل کو بھانپنے کے بعد اپنی مالی پالیسی میں تبدیلی کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ تھا۔صدر ایردوان اب ملک میں شرح سود کو کم کرتے ہوئے ایک ایسا معاشی ماڈل متعارف کروا رہے ہیں جس میں حقیقی سرمایہ کاری، پیداوار، زیادہ سے زیادہ روزگار، برآمدات کے زیادہ مواقع موجود ہیں۔ اس معاشی ماڈل کے نتائج حاصل کرنے کے لیے صدر ایردوان کو کم از کم چھ سے آٹھ ماہ کی ضرورت ہے۔

بیس سال کے طویل عرصے بعد اپوزیشن کو یہ پہلا موقع ملا ہے کہ عوام کو صدر ایردوان کے خلاف استعمال کیا جائے لیکن وہ ابھی تک ترک باشندوں کو سڑکوں پر لانے اور قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں صدر ایردوان کی مقبولیت میں کمی ضرور آئی ہے لیکن وہ اپنی مقبولیت بڑھانے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں اور اگر ان کو اپنے نئے معاشی ماڈل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع مل گیا تو وہ جون 2023ء کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ایک بار پھر کامیابی حاصل کرتے ہوئے اگلی ٹرم کے لیے صدر منتخب ہو جائیں گے اور دنیا بھی ان کے اس معاشی ماڈل کی پیروی کرتی دکھائی دے گی۔

تازہ ترین