• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحۂ سیالکوٹ کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کا یہ اعلان کہ ’’مذہب کے نام پر ظلم کرنے والوں کو (قانون کے کٹہرے میں لائے بغیر) نہیں چھوڑیں گے‘‘، ایک جانب ان عناصر کے لئے حتمی انتباہ ہونا چاہئے جو ریاست کو بتدریج ہجوموں کے گھیرے میں لے کر کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب اسے نقطۂ آغاز سمجھا جانا چاہئے ایسے اقدامات اور فیصلوں کا جو اسلام کے نام پر قائم کی گئی اس مملکت کی عملداری زیادہ سے زیادہ مستحکم کرنے کی ضرورت ہیں۔ سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں ملازمین سمیت مشتعل ہجوم کے ہاتھوں کارخانے کے سری لنکن منیجر کے بہیمانہ قتل کے افسوسناک واقعہ کے بعد پیر کے روز سیکورٹی امور سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت کے جو تاثرات سامنے آئے، ان سے واضح ہو چکا ہے کہ ہجوم کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، ایسے واقعات کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا اور ذمہ داران کیلئے قانون کے مطابق سخت سزائیں یقینی بنائی جائیں گی۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے واضح حکمت عملی بنائی جائے گی۔ مذکورہ سانحے نے جہاں ایک جانب پوری قوم کو غمگسار و شرمسار کیا وہاں پورے پاکستانی معاشرے کے ہر حصے کی طرف سے جس شدید ردّعمل کا اظہار سامنے آیا، اسے ریاستی طاقت بنا کر انسدادی حکمت عملیاں بروئے کار لانے کا ذریعہ بنایا گیا تو توقع کی جانی چاہئے کہ احساس زیاں کی یہ شدید اور دل خراش کیفیت تحمل، رواداری، انسانی جان کے احترام سمیت ایسی فضا پیدا کرنے میں معاون ہوگی جو پاکستان کے ہر بچے، جوان، بوڑھے سے لے کر وطن عزیز میں ملازمت، تعلیم، سیاحت اور دیگر مقاصد کے لئے آنے والے ہر غیر ملکی کو بھی ہر طرح سے محفوظ ہونے کا طمانیت بخش احساس دے گا۔ منگل کے روز تمام مکاتب فکر کے علما و مشائخ نے اسلام آباد میں سری لنکن ہائی کمشنر موہن وجے وکرما سے ملاقات کرکے سری لنکن شہری کے قتل پر ان سے تعزیت کی، سیالکوٹ واقعہ کو انتہائی قابل مذمت قرار دیا اور واضح کیا کہ مذکورہ واقعہ قرآن و سنت، آئین و قانون، جمہوریت اور علمائے کرام کی تیار کردہ دستاویز ’’پیغام پاکستان‘‘ کے منافی اور اسلام و پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔ علماء و مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ بھی پڑھ کر سنایا گیا اور جمعہ کے روز یوم مذمت منانے کا اعلان کیا گیا۔ ہائی کمشنر کے بیان سے واضح ہے کہ اس افسوسناک واقعہ سے پاک سری لنکا دیرینہ تعلقات متاثرنہیں ہوں گے۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں، دانشوروں اور دیگر حلقوں کے ردّعمل سے بھی واضح ہے کہ سب ہی مذکورہ واقعہ پر مغموم ہیں اور وطن عزیز کو بدنام کرنے، اس کے حوالے سے غیر محفوظ ہونے کا تاثر اجاگر کرنے اور دوست ممالک سے تعلقات میں بگاڑ لانے کی سازشیں روکنے کی کاوشوں کے حامی ہیں۔منگل کے روزہی وزیراعظم ہائوس میں تعزیتی ریفرنس منعقد ہوا اور متعلقہ فیکٹری کے ہی ایک عہدیدار نوجوان ملک عدنان کو توصیفی سند دی گئی جس نے اخلاقی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر پریانتھا کمارا کی جان بچانے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔ مذکورہ واقعہ پر پاکستانی سماج کی طرف سے جو شدید ردّعمل سامنے آیا وہ اصلاح احوال کے شعور و جذبے کی نشاندہی کرتا ہے جس کے ضمن میں کلیدی ذمہ داری حکومت کی ہے کیونکہ حکومت ہی پالیسی سازی اور طے شدہ طریق کار کے تحت اہداف کے حصول کے لئے لوگوں کو منظم کرتی ہے۔ تاہم علما و مشائخ، سیاسی حلقوں، دانشوروں، اساتذہ اور میڈیا کا کردار بھی اہم ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس باب میں اتفاق رائے سے حکمت عملی ترتیب دےکر سیاسی عزم سے بروئے کار لائی جائے۔

تازہ ترین