• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مطیع الرحمن نظامی ، شکیل آفریدی اور محصورین پاکستان

پاکستان سے وفاداری کا جرم نبھانے والا ایک اور سچا محب وطن شخص مطیع الرحمان نظامی اپنے ملک سے وفاداری اور ایک دشمن ملک سے غداری کے جرم میں پھانسی چڑھا دیا گیا ، مطیع الرحمن نظامی نے یہ جرم آج کی دنیا کے ایک ایٹم بم رکھنے والے طاقت ور اسلامی ملک پاکستان سے وفاداری کی صورت میں کیا تھا،لیکن بدقسمتی سے جس وقت اس نے یہ جرم کیا تھا اس وقت وہ اپنے ملک کو دو لخت ہونے سے بچانے میں ناکام رہا اور آج جس ملک کے لئے اس نے وفاداری نبھائی وہ ملک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اپنے اس وفادار شہری کی جان بچانے میں ناکام ہوگیا ،مجھے مطیع الرحمان نظامی کی شہادت پر شدید رنج ہے لیکن اس سے زیادہ دکھ اپنے ملک کی حکومت کی بے حسی پر ہے جو ا تنی بے بس اور بے حس ہے کہ اپنے ملک سے وفاداری نبھانے والے اپنے سابق شہری کو انصاف بھی نہ دلا سکی ، مطیع الرحمن نظامی نے دنیا کے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی انھوںنے صرف اپنے ملک پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کے لئے ایک وطن سے محبت کرنے والے شہری کا کردار ادا کیا تھا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم بحیثیت ملک و قوم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجودعالمی سطح پر اتنےکمزور ہوچکے ہیں کہ کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں ،ہم پستی کے راستے پر گامزن ہیں ، اگر آج ہم دنیا کی سیاست اور معیشت میں اہم کردار ادا کررہے ہوتے تو یقیناََ دنیا بھی ہمارے ساتھ مل کر مطیع الرحمن نظامی کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرتی ،لیکن ہمارے پاس ایسا لگتا ہے کہ صرف ایٹمی طاقت کے کچھ باقی نہیں رہا ہے ، ہم سے ہی آزادی حاصل کرنے والا بنگلہ دیش آج ایک دشمن ملک کی شہہ پر پاکستان سے وفاداری نبھانے والے محب وطن شہریوں کو پھانسیاں دےرہا ہے اور ہم بے بسی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں ، انصاف کی بات یہ ہے کہ جس وقت بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اس وقت مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کی یہ دینی اور دنیا وی ذمہ داری تھی کہ وہ پاکستان کا وفادار رہے اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں رہنے والے بہاریوں اور دیگر مقامی شہریوں نے یہی ذمہ داری نبھائی لیکن حالات ایسے تھے کہ بنگلہ دیش بننا ناگزیر ہوگیا ، پھر پاکستان نے بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا اور معاملات کو طریقہ کار کے ذریعے حل کرلیا گیا ، اس کے بعد مطیع الرحمن سمیت لاکھوں کی تعدادمیں پاکستان سے ہمدردی رکھنے والے بنگالی اور بہاری شہریوں نے بنگلہ دیش کو اپنا ملک تسلیم کرتے ہوئے وہاں کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کردی اور وہاں کبھی بنگلہ دیش کی سلامتی کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا تو پھر اب کیوں بنگلہ دیش کی حکومت بنگلہ دیش کی آزادی کے زمانے کے واقعات کو کریدنے کی کوشش کرتے ہوئے متحدہ پاکستان کے حامیوں کو غدار قرار دے کر شہید کرنے کی کوشش کررہی ہے،اگر یہی بنگلہ دیش کی نظر میں انصاف ہے تو پھر پاکستان کو بھی چاہئے کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت پاکستان سے غداری کرنے والے بنگالی ملزمان جومکتی باہنی کے روپ میں پاکستان کی سلامتی کے خلاف کام کرتے رہے کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرے اور ان کو بھی پھانسی سمیت دیگر سزائیں دی جائیں تاکہ بنگلہ دیش کے طرز پر کیا جانے والا انصاف پاکستان میں بھی کیا جاسکے ، لیکن پھر وہی بات دہرانی پڑے گی کہ ہم عالمی سطح پر وہ مقام حاصل کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں جہاں پہنچ کر اپنی انصاف پر مبنی بات منوائی جاسکے ، یہاں میں شکیل آفریدی کی مثال دینا ضروری سمجھوں گا جو پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے بھی امریکہ سے وفاداری کرگیا ، جو سو فیصد پاکستان سے غداری ہی تھی ، اگر وہ پاکستان کا وفادا ر تھا تو اسے اسامہ بن لادن کے حوالے سے اپنی معلومات سےپاکستانی حکام کو آگاہ کرنا چاہئے تھا،لیکن اس نے پاکستان کے مقابلے میں امریکہ سے وفاداری کو ترجیح دی۔ یہ امریکہ کاہی دبائو ہے کہ ہماری حکومت اب تک شکیل آفریدی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے ، جبکہ امریکہ نے شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے نہ صرف ایف سولہ طیاروں کا سودا معطل کردیا ہے بلکہ مجموعی تعلقات بھی پاکستان سے کشیدہ ہی ہیں ، لگتا ایسا ہی ہے کہ امریکی دبائو کے نتیجے میں عنقریب شکیل آفریدی امریکہ روانہ ہوجائے گا ، چلیں ٹھیک ہے امریکہ تو عالمی سپر پاور ہے اور جس کو امریکہ کی اشیر با د حاصل ہوجائے وہ بھی شکیل آفریدی جیسا بااثر ہی بن کر نکلتا ہے ، لیکن بھارتی خفیہ ایجنسی را کا خفیہ ایجنٹ پاکستان سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے جس کو چھڑانے کے لئے بھارتی حکومت نے پاکستان پر اپنا دبائو بڑھا دیا ہے لیکن امید ہے کہ پاکستان بھارتی دبائو تو برداشت کرنے میں کامیاب ہوہی جائے گا ، لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ شکیل آفریدی کی رہائی کے لئے پاکستان پر دبائو ڈال سکتا ہے ، امریکہ پاکستانی شہریوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان سے چھڑا کر لے جاسکتا ہے ، بھارت اپنے جاسوس کی رہائی کے لئے پاکستان پر دبائو ڈال سکتا ہے تو پھر کیوں پاکستان نے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی رکوانے کے لئے وہ دبائو استعمال نہیں کیا جو اس کا حق تھا ، مطیع الرحمن نظامی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر تھے ، وہ بنگلہ دیش کے سابق وفاقی وزیر رہ چکے تھے ، وہ کسی کالعدم تنظیم کے رکن نہیں تھے ، انھوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کبھی وہاں کے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ، وہ حکومت اور ملک کے وفادارتھے تو پھر کیوں انھیں اس جرم کی سزا دی گئی لیکن یہ موقع بھی بنگلہ دیشی حکومت کو پاکستان نے ہی دیا ہے کیونکہ جو ملک اپنے دولاکھ شہریوں کو آج بھی بنگلہ دیش سے واپس نہ لاسکا ہو ، وہ کس طرح ایک بنگلہ دیش کے شہری کی حمایت میں آوازبلند کرسکے گا ، آج بھی دولاکھ بہاری بھائی بنگلہ دیش میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی اس آس کے ساتھ گزار رہے ہیں کہ انھیں ان کے ملک پاکستان کی حکو مت پاکستان لانے کا انتظام کرے گی، لیکن چالیس سال بعد بھی ان غریب پاکستانیوں کی کوئی سنوائی نہیں ہورہی تو پھر ایسے ملک کے شہریوں پر تو ہر کوئی بھی ظلم وستم کرنے پر تیار نظر آئے گا ، میں نے مضبوط و مستحکم ممالک کے شہریوں کو صرف اس بات پر کہ وہ امریکہ ،جاپان یا برطانیہ کے شہری ہیں فخر کرتے دیکھا ہے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ دنیا میں کہیں بھی انھیں کوئی مشکل پیش آئے گی تو ان کا ملک ان کے لئے ڈھال بن کر کھڑا ہوگا لیکن کیا بحیثیت پاکستانی ہم بھی ایسا فخر کرسکتے ہیں؟ مطیع الرحمن نظامی شہید سمیت بنگلہ دیش میں پھنسے اپنے لاکھوں پاکستا نی بھائیوں کو دیکھ کر اس سوال کا جواب مشکل ہی لگتا ہے۔ قارئین آپ کیا کہتے ہیں؟
تازہ ترین