یہ 2012 کی بات ہے۔ سیالکوٹ کے نواحی علاقے بٹر میں نعمان نامی شخص نے فائرنگ کرکے 22 سالہ نوجوان تسلیم کو قتل کردیا۔ تسلیم کا باپ پہلے ہی وفات پاچکا تھا۔ اس کی بیوہ ماں پروین بی بی نے محنت مزدوری کرکے تسلیم کو پال پوس کر بڑا کیامگر شوہر کے بعد یہ سہارا بھی چھن گیا۔
پروین بی بی نے بے سر و سامانی میں بیٹے کا مقدمہ لڑنا شروع کیا اور قسم کھائی کہ جب تک بیٹے کے خون کا حساب نہیں ملتا، ننگے پاؤں رہوں گی۔پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا۔
مقدمہ چلتا رہا اور 7 سال بعد سیشن کورٹ نے ملزم نعمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی۔ ماں کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا مگر یہ ٹھنڈک عارضی ثابت ہوئی۔ مجرم نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کردی اور ہائیکورٹ نے 2019 میں یہ کہہ کر اس کو رہا کردیا کہ سیشن کورٹ میں پیش کیے گئے ثبوت ناکافی ہیں اور قانون کو مزید ’’ٹھوس‘‘ شواہد درکار ہیں۔
جیل سے نکلتے ہی مجرم بیرون ملک چلا گیا اور پروین بی بی ننگے پاؤں سیالکوٹ کی گلیوں میں اسے ڈھونڈتی رہی۔ ایک ماں کا انتقام مجرم کو آخر واپس سیالکوٹ کھینچ لایا اور 30 نومبر کو ماں نے اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ مجرم کے گھر کے دروازے پر ہی اسے قتل کردیا۔ مشن مکمل کرنے کے بعد ماں نے چھوٹے بیٹے کو فرار کروایا اور خود7سال بعد جوتے پہنے اور تھانے میں جاکر گرفتاری دے دی۔
پروین بی بی نے قانون ہاتھ میں لے کر درست نہیں کیا مگر قانون نے اس کے ساتھ کون سا انصاف کیا؟اب پھر وہی قانون ہے، وہی سچ، وہی ثبوت، وہی عدالتیں اور وہی پولیس ہے مگر کٹہرے میں نعمان نہیں بلکہ پروین بی بی ہے۔ سچ بھی پروین بی بی کے خلاف ہے اور ثبوت بھی۔
میری اور میرے جیسے ہزاروں عام پاکستانیوں کی ہمدردیاں پروین بی بی کے ساتھ ہیں کیونکہ قانون ایک آنکھ سے دیکھتا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ قانون بھی ہماری طرح دونوں آنکھوں سے دیکھے تاکہ ایک بیوہ ماں کو اپنا سچ ثابت کروانے کیلئے 7 سال تک ننگے پاؤں عدالتوں کے چکر لگانے کے بعد مایوس ہوکر قانون ہاتھ میں نہ لینا پڑے۔
اب ایک مرتبہ پھر سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں سری لنکن منیجر کے بہیمانہ تشدد سے قتل، جب اِس بربریت سے بھی تسلی نہ ہوئی تو لاش جلا دی گئی۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کیلئے یہ شرم کا دن ہے،واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے گی۔علماء کونسل، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان،جماعت اسلامی اور ٹی ایل پی سمیت پاکستان میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنےوالے افراد نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیاہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سے رپورٹ طلب کرلی۔وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
پولیس اہلکار پہلے تو پہنچے ہی دیر سے، پھر مشتعل ہجوم دیکھ کر مزید پولیس اہلکار بلوائے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، پریانتھا کمارا قتل ہوچکا تھا اور اس کی لاش جلائی جاچکی تھی،خاموش تماشائی بنے رہنے کا جواز پولیس نے یہ گھڑا کہ ہجوم بے قابو تھا، لوگ مشتعل تھے۔
ریسکیو 1122 والے بھی کچھ نہ کرسکے اور کہا کہ ہم وردی میں تھے ممکن ہی نہ تھا کہ مشتعل لوگوں میں گھس کر پٹنے والے شخص کو بچانے کے لیے کوئی مداخلت کرتے، جب پولیس نے ہجوم کو نہیں روکا تو ہم کہاں سے ریسکیو کرتے؟دوسری جانب سیالکوٹ واقعے میں ملوث100سے زائد افراد کو گرفتار کرلیا گیاجن میں سے ایک فرحان نامی شخص نے اعتراف جرم کرلیاہے۔
وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی طاہر اشرفی، وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
ترجمان کا کہنا تھاکہ سری لنکن فیکٹری منیجر کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ افسوسناک ہے، سی سی ٹی وی کی مدد سے ملزمان کی نشاندہی کی جارہی ہے،متعددملزمان کو گرفتار کرلیاہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے کہا کہ واقعے کے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، ہمیں امن، محبت اور رحم کے پیغام پر کاربند ہونے کی ضرورت ہے۔
کیا یہ ملک ایک محفوظ ملک تصور ہو گا؟ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں، انسان سوال کرے بھی تو کس سے کرے؟ علامہ طاہر اشرفی نے سیالکوٹ میں توہین مذہب کے الزام میں سری لنکن منیجر کے قتل کی مذمت کی۔
ٹی ایل پی ترجمان کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعے کو تحریک لبیک پاکستان سے منسوب کرنا افسوس ناک ہے، اس واقعے میں ملوث کرداروں کو گرفتار کر کے سامنے لایا جائے،امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے سیالکوٹ واقعے کو اسلام اور انسانیت کی توہین قرار دیتے ہوئے واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور مجرموں کی گرفتاری اور قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
فیکٹری مالک نے کہا ہے کہ پریانتھا کمارا نے 2013 میں بطور جی ایم پروڈکشن جوائن کیا تھا، پریانتھا کمارا محنتی اور ایماندار پروڈکشن منیجر تھا۔
اب ایک اور وڈیو فیصل آباد کی منظر عام پر آئی ہے کہ چوری کے الزام میں 2سے 3عورتوں کو عریاں کر کے مارا گیا جس کو دیکھ کر سرشرم سے جھک گیا۔
آج سرگودھا میں بھی ایک عورت کو زندہ جلا دیا اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس نے ٹھیلا لگانے کا بھتہ نہیں دیا تھا اس پر انتظامیہ اور پولیس خاموش ہے۔ لگتاہے پنجاب میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، کب تک بزدار حکومت کی کمزوریاں چھپا ئی جاتی رہیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)