پاکستان میں گردوں کے آدھے سے زیادہ ٹرانسپلانٹ غیر قانونی طور پر کیے جا رہے ہیں، ملک میں گردوں کے سالانہ ایک ہزار ٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں جن میں سے 500 کے قریب غیر قانونی طور پر کیے جاتے ہیں، پنجاب میں لاہور اور راولپنڈی جبکہ اسلام آباد غیر قانونی گردوں کی پیوندکاری کے گڑھ ہیں۔
اس بات کا انکشاف صدر پاکستان ٹرانسپلانٹ سوسائٹی اور ملک کے نامور کڈنی ٹرانسپلانٹ سرجن پروفیسر سعید اختر نے اتوار کے روز دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
پروفیسر سعید اختر نے دی نیوز کو انٹرویو میں مزید کہا کہ اسلام آباد میں بھی گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری بڑی تعداد میں کی جا رہی ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں بعد از مرگ اعضاء کو عطیہ نہ کرنے کا رجحان ہے۔
پروفیسر سعید اختر کا کہنا تھا کہ گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری شرعی طور پر بھی حرام ہے، جس کا میڈیکل رزلٹ بھی اچھا نہیں آتا کیونکہ غیر قانونی پیوندکاری کرنے والے بہت ساری باتوں کا خیال نہیں رکھتے جس کی وجہ سے مریض کا جسم گردے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ ہزاروں افراد اعضاء کی پیوند کاری نہ ہونے کے سبب جاں بحق ہو رہے ہیں، جبکہ صرف دل کے بعد از مرگ عطیہ نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان میں سالانہ سیکڑوں نوجوان جاں بحق ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب تک صرف چند لوگوں نے بعد از مرگ اعضاء عطیہ کیے، جن سے صرف چار پانچ لوگوں کی جان بچائی جاسکی، چند سال قبل آسٹریلیا سے آئے ہوئے ایک 21 سالہ پاکستانی نوجوان کے ایک حادثے میں دماغی طور پر مردہ ہونے کے بعد اسکی وصیت کے مطابق اس کے دونوں گردے دو خواتین کو لگائے گئے جس کی وجہ سے ان دونوں کی زندگی بچ سکی۔ ان میں سے ایک گردہ اسلام آباد میں جبکہ دوسرا کراچی میں لگایا گیا۔
پروفیسر سعید اختر کا کہنا تھا کہ ایک انسان کے اعضاء سے 11 افراد کی جان بچ سکتی ہے جبکہ بعد از مرگ گردے عطیہ کر کے ایک فرد دو افراد کی جان بچا سکتا ہے۔
انہوں نے اس موقع پر اپیل کی کہ لوگ بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے کے لیے اپنی زندگی میں ہی وصیت کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ بعد از مرگ اعضاء عطیہ کرنے سے نہ صرف ڈونر کی آخرت سنور جائے گی بلکہ اس عمل سے قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے گا۔
پاکستان کے نامور کارڈیک سرجن ڈاکٹر پرویز چوہدری نے دی نیوز کو بتایا کہ ان کے اندازے کے مطابق پاکستان میں 10 لاکھ افراد کو دل کے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے، پاکستان میں صرف سالانہ 25 ہزار دل کے آپریشن ہوتے ہیں جبکہ لاکھوں افراد دل کی سرجری نہ ہونے کے سبب اپنے گھروں میں ہی انتقال کر جاتے ہیں۔
قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی کے پروفیسر آف کارڈیالوجی پروفیسر جاوید سیال کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ابھی تک دل کا کوئی ٹرانسپلانٹ نہیں ہوا لیکن اس وقت ملک میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں افراد ایسے ہیں جو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں بعد از مرگ اعضاء خاص طور پر دل عطیہ کرنے کی روایت شروع کرنے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں نوجوان افراد کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔