• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”مصری شہری بھونے جا رہے ہیں اور وہ بھی مہارت کے ساتھ، یہ میرا پہلا تاثر تھا جب 18 اگست کی رات کو مرنے والے 34 میں سے نو قیدیوں کی گیس سے سوختہ لاشیں دیکھیں( خوفناک، شرمناک، المناک )یہ تمام الفتح مسجد سے گرفتار کیے گئے تھے ! الزام نہ مقدمہ“ رابرٹ فسک ڈیلی انڈیپنڈنٹ کو رپورٹ کررہے ہیں۔ اس سے پہلے 8 اگست جب قاہرہ کو خون سے نہلایا گیا تو فسک نے ر پورٹ کیا۔”مصر کی ہزاروں سالہ تاریخ کا یہ سیاہ ترین دور ہے چوراہوں اور الفتح مسجدمیں لاشوں پر جما ہوا تازہ خون لاکھوں مکھیوں کو دعوتِ طعام دے رہا تھا۔خوف، ہراس اور غصے میں ایک مصری شہری مجھے بتا رہا تھادیکھو کس وحشیانہ طریقے سے ہمیں قتل کیا گیا ہے جن لوگوں نے ہماری حفاظت کرنی تھی انہوں نے ہزاروں نہتے شہریوں کے سینے میں تاک تاک کر گولیاں اتاریں“۔رابرٹ فسک اپنے مراسلہ میں جھوٹ کا کاروبار کرنے والوں سے صرف اتنا پوچھتا ہے کہ
ow some Ordinary Egyptian Became Malicious Terrorist" "H
وطن عزیز سے گلہ تو نہیں لیکن تکلیف دہ موضوعات کا انبوہ ایک مستقل مسئلہ ۔ منگل کو کالم لکھنا ہوتا ہے تاکہ بدھ کو قارئین کی خدمت میں پیش ہو جائے ۔6 دن پہلے ہی اگلے کالم کی پیش بندی ذہن کو جکڑ لیتی ہے لیکن برا ہو انہونیوں کا روزانہ کی بنیاد پرموضوع تبدیل ہوا چاہتا ہے۔ چند گھنٹے پہلے کا واقعہ پرانا اور آئیڈیا کی شیرازہ بند ی کا شیرازہ بکھر جانا لازم۔ جتنے ارادے باندھتا ہوں توڑنے ہی پڑتے ہیں چنانچہ منگل کی صبح کی بلبلاہٹ قارئین کی برداشت کا ٹیسٹ ہے ۔پچھلے ہفتے کا احاطہ کریں تومصر میں قتل ِ عام،عرب بہار(Arab Spring) جو اب آگ اگلتی دھوپ کی زد میں عرب سمر بن چکی ہے ،بارشیں ، سیلاب، LOC پر دہکتی گرجتی توپیں، حافظ آباد کے” سکندرِ اعظم “کا” قلعہ روھتاس“ کا پانچ گھنٹے تک کا محاصرہ ، نواز شریف صاحب کی مایوس کن تقریر جس کا ناک نہ نقشہ ،سر نہ پیر۔
چیئرمین تحریک ِ انصاف نے میانوالی کے جلسوں میں کل ہی فرمایاکہ ”میانوالی کے لوگ میرا ساتھ نہیں چھوڑ یں گے“یقینا میانوالی کے لوگوں نے آپ کا بھرپور ساتھ دیا یہ آپ ہی ہیں جو میانوالی کا ساتھ چھوڑ گئے۔ مزید فرمایا” عوام نظریہ کی سیاست کو ووٹ دیں“ عوام الناس سوالی !نظریہ ہے کیا؟ کمر مشانی (میانوالی) میں پرانے ورکرزنے خانصاحب کی گاڑی روکی اور اپنا احتجاج رقم کروایا کہ ہمارے بزرگوں نے 100 سال کی محنت و مشقت کے بعد جاگیرداروں، نوابوں، قاتلوں اور ظالموں سے جان چھڑوائی آپ نے ان کی بری شہرت والی اولاد ہمارے پر مسلط کر دی۔ عمران خان نے جواباََ انتہائی معصومیت کے ساتھ نصیحت فرمائی کہ ”آپ شخصیت کو نہ دیکھیں،صرف نظریہ کو ووٹ دیں“۔ گاڑی سے چمٹے ورکرز کا ترت جواب الجواب” خانصاحب کیا آپ نے خود ”نظریہ “کو ٹکٹ دیا ہے “؟ رزلٹ کل نکلے گا بتا میں ابھی دیتا ہوں کہ جناب میانوالی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فارغ۔ میانوالی اپنی توہین اور بے توقیری کا بدلہ چکانے کے لیے جت چکا ہے۔
ملک سکندر کا ڈرامہ بھی خوب ، شکوک و شہبات کا لامتناہی سلسلہ ۔سیاست میں قحط الرجال ہی سہی لیکن ن لیگ کے دوبندوں کی ذہانت اور فطانت کااعتراف ۔ ایک عزتِ مآب جناب پرویز رشید جو سیاسی اسرار و رموز میں یکتائے روزگاراور دوسرے چوہدری نثار علی خان۔ میں کوئی سیاسی مفکر یا سیاسی نجومی تو نہیں قرائن بتاتے ہیں کہ انتہائی کامیاب وزیرِ داخلہ ثابت ہوں گے۔ میرا ان کے بارے میں ایک ہی تحفظ رہا ہے کہ جرأتِ رندانہ سے محروم۔ پچھلے 2 مہینوں سے جس طرح معاملات کو نبٹا رہے ہیں اس سے یہ تاثر بھی زائل ہوتا نظر آرہا ہے ۔ سکندر ڈرامے کا حتمی انجام تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے؟ زمرد خان کے کردار پر رائے زنی کرنے سے اس لیے قاصر کہ عوام الناس نے ان کی شجاعت اور بہادری پر ”نشانِ حیدر“ ایوارڈ کر دیا ہے البتہ وزیر ِ داخلہ کی اسمبلی تقریر، معاملہ فہمی اور ذمہ داری قبول کرناانتہائی مدبرانہ فعل تھا۔بڑے میاں صاحب کو بھی تقریر چوہدری نثارسے لکھوانی چاہیے تھی تاکہ قوم میں حوصلہ بندی اور امید کی شمعیں روشن ہو سکتیں۔کیا یہ مان لیا جائے کہ اگر بیلٹ بکس کے ذریعے نظریاتی مسلمان اقتدار میں آ جائیں تو جمہوریت ناپاک سمجھی جائے گی؟نظریاتی مسلمان تو انتہاء پسند ہو ہی نہیں سکتا کہ قرآن امت وسط کہتا ہے۔ بھارت کے اندر جب انتہاء پسند ہندو (BJP) مقتدر رہاتو اقلیتوں پر عرصہ حیات تنگ رہا ۔مجال ہے کہ عالمی ضمیرپر جوں رینگتی دوسری طرف اسلامی ممالک جمہوریت کا خمیازہ بھگتنے کو تیار !پہلے الجزائر پھرفلسطین ،آج مصر اور اگلا سٹاپ تیونس، ترکی بھی ڈرائنگ بورڈ پر نشان زدہ ہو چکا۔ مصر کی خونچکاں داستاں نے فرعون ، ہلاکو، چنگیز ، ہٹلر، سٹالن کی یاد ہی تو تازہ کی ہے ۔ اقوام عالم ششدر اور دم بخود۔گو کہانی کے ڈائریکٹر زاور فنانسرز کھسیانے مگر کھمبا نوچنے میں عار۔ اسلحہ و بارود کا جو ذخیرہ اسرائیل سے نبٹنے کے لیے تھا آج وہ اخوان المسلمین کے چیتھڑے اڑا رہا ہے۔امت مسلمہ کا فخر اخوان کا حوصلہ ، صبر، استقامت ہمالیہ پہاڑ۔
حدیث ِ مبارکہ ﷺ ہی نے تورہنمائی فرمائی ہے کہ ”امت ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم کے کسی حصے میں درد ہوتا ہے تو اس کی تکلیف جسم کا ہر حصہ محسوس کرتا ہے“(مسلم)۔ پوری امت تکلیف میں۔
3 جولائی کے بدقسمت دن جب مرسی حکومت کو ٹینکوں کے نیچے روند کر مسمار کیاگیا تو وجوہات کتنی بونگی اور بھونڈی۔معاشی بحران، آئین کی خلاف ورزی اور رائے عامہ مخالف۔ قطع نظر کہ مرسی حکومت کے معاشی بحران میں عالمی طاقت اور خلیجی ممالک کا کیا رول رہا۔کیایہ بھی مان لیا جائے کہ امریکہ جب بش کے زمانہ میں شدید مالی بحران سے دوچار ہوا اور امریکی عوام اٹھ کھڑے ہوئے وال سٹریٹ پر قبضہ کر لیا تو کیا امریکی فوج کو اقتدار پر قابض ہوجانا چاہیے تھا؟یقینا نہیں۔مرسی صاحب جو منتخب پارلیمان کے حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے ۔فوج اور سپریم کوٹ اُسے اپنے خلاف ظاہر کر رہی تھی۔آئینی عدالت کے سربراہ ادلے منصورجس نے صدر مرسی کو آئین کی خلاف ورزی کا نوٹس بھیجا وہ خود مرسی کی جگہ سرابرہِ مملکت بن گیا۔ تففن بھی تعفن بھی ۔مرسی کے مخالف رائے عامہ کی تو بین الاقوامی تشہیر کی گئی جبکہ اس کے مقابلے میں مرسی کے حق میں دگنے لوگ چوراہوں پررہے ۔ مجال ہے آزاد عالمی ذرائع ابلاغ نے پرومرسی احتجاج کو جگہ دی ہو۔ پاکستانی میڈیا کوخیر سے خبر ہی دیر سے پہنچتی ہے ان کا اکتفاء بھی مرسی مخالف احتجاج دکھانے پر رہا ۔ شاباش ایران پریس ٹی وی(ایران) جو دونوں اطراف کی پوری کوریج دیتا رہا۔ہفنگٹن پوسٹ کے کالم نگار ایرک مارگولس کی آہ وبکا دیدنی ہے کہ” یو ایس اے اور عرب ممالک جس طرح اپنے ٹاؤٹ جنرل عبدالفتح السیسی کی مدد فرما رہے ہیں اور پیسہ پانی کی طر ح بہا رہے ہیں ایسے ممالک مصر کی عوام کے قتلِ عام میں برابر کے شریک ہیں “۔
چند دن پہلے چین نے بھی سخت وارننگ دی ہے کہ ایسی درندگی کو روکنا ہو گا۔ یورپین یونین جو منافقت میں امریکہ کے بعد سرفہرست ہیں نے بھی فوری انتخابات کا مطالبہ تو ضرور کیا ہے مگر ہندوستانی دانشور بھدرا کمارکا کہنا ہے کہ ”یورپین جنرل السیسی پر جس اونچی آواز سے بھونکیں گے اس سختی سے کاٹیں گے نہیں“۔
جب صدر مرسی کی قانونی منتخب حکومت کے خلاف یہ بدقستمت واردات ہفتوں پہلے شروع ہوئی تو حواس باختہ امریکی وزیرِ خارجہ (برطانوی وزیرخارجہ کا بیان تو عقل، شعور، شائستگی کے سارے معیار پامال کرتا ہے اس کا ذکر ہی گراں)کا ردعمل تکلیف دہ اور باعثِ ندامت۔ جنرل سسی نے ”جمہوریت کی بحالی“ کی خاطر یہ شبِ خون مارا ہے۔ جان کیری شبِ خون کو فوجی انقلاب (Coup)کہنے سے انکاری ۔ وجہ صاف ظاہر کہ 1.3 بلین کی امریکی فوجی امداد کا تسلسل تب ہی ممکن جب ایسے اقدام کو فوجی انقلاب تصورنہ کیا جائے۔ صدر مرسی کے دورانِ اقتدار ہر قسم کی بیرونی امداد ہچکولوں کا شکار رہی بلکہ اقتصادی کسمپرسی کی ایک وجہ عرب ممالک اور امریکہ کی جانب سے ترسیل ِ امدادمیں کھوٹ بھی تھی لیکن جب مرسی حکومت ختم ہوئی تو مد دکے فلڈگیٹ کھل گئے ۔ اخوان کی قسمت میں اگر آزمائش لکھی ہے تو اللہ نے ان کو ہمت ،صبر اور حوصلہ بھی دیا ہے جبکہ امریکہ کے ٹاؤٹ حکمران جو مسلمان دنیا میں خانہ جنگی اور فساد عام کرنے کے لیے امریکہ کے آلہ کار بن چکے ایسے ننگِ دین تاریخ کا سبق ایک بار پھردھرا لیں ۔ ذلت ،خواری ، رسوائی موت سے پہلیکا انجام اور اگلے جہاں عذاب کی بھیانک قسم منتظر۔ باعث شرم!جمہوریت، سویلین رول اور انسانی حقوق کے علمبردار ویسٹ منسٹر ماڈل جمہوری حکومت کی تنسیخ پر ہونٹ سی چکے ہیں۔گو کہ اخوانوں نے جبرو استبداد کے آگے ایک نئی حکمتِ عملی تشکیل دی ہے تاکہ انسانی جانوں کے تقدس کی مزید پامالی نہ ہو پائے اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرعون اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکے گا۔ جگر اور پیرومرشد کی کہی بات
جانباز ِمحبت جو ہیں جگر مرنے سے نہیں ڈرتے ہرگز
جب وقت ِ شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں
بامشتاقاں حدیث خواجہ بدر و حنین آور
تصرف ہائے پنہا نش بچشم آشکار آمد
دگر شاخ خلیلِ از خون مانم ناک می گرد
بیاز ار محبت نقد ما کامل عیار آمد
سرِخاک شہیدے برگہاے لالہ می پاشم
کہ خونش بانہال ملت ما سازگار آمد
کاش چند اسلامی ممالک غیرت کے تقاضے پورے کرکے OIC کا اجلاس ہی بلا لیں۔
تازہ ترین