اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے ’توہین مذہب‘ کے الزامات میں درج ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران متعلقہ ٹرائل کورٹ کو کیس کا حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکتے ہوئے آئندہ سماعت پر مقدمے کے تفتیشی افسر کو ذاتی طور پر عدالت میں حاضر ہونے کا حکم جاری کیا ہے،جبکہ توہین رسالت کی شکایت کرنے والے افراد کو بھی نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔،جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پیرکو ملزم طاہر نقاش اور دیگر ملزمان کیخلاف دائرایف آئی آر سے توہین رسالت کی دفعات خارج کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ ملزمان کے و کیل نےموقف اپنایا کہ ننکانہ صاحب میں کچھ شہری بغیر اجازت احمدیوں کی عبادت گاہ میں داخل ہوئے ،بعد میں انہوںنے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ احمدیوں کی عبادت گاہ کی دیوار پر کلمہ طیبہ درج تھا اور قرآن کریم موجود تھا۔انہوں نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے انکے موکلین پر توہین رسالت کے الزام میں فرد جرم عائد کرتے ہوئے اپنے عبوری حکم میں قرار دیاہے کہ احمدی مذہب سے تعلق رکھنے والے ملزمان کلمہ طیبہ اور قرآن کریم میں آخری نبی کی جگہ مرزا قادیانی کا نام استعمال کرتے ہیں اس لیے زیر غور کیس میں توہین رسالت کی دفعہ بھی لگتی ہے۔فاضل وکیل نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کیخلاف ملزمان کی اپیل خارج کرتے ہوئے نہ صرف اسکا عبوری حکم برقرار رکھاہے بلکہ قرار دیاہے کہ کسی احمدی کا کلمہ پڑھنا یا قرآن پاک اپنے پاس رکھنا بھی توہین رسالت ہے، ملکی عدالتیں ایسے فیصلے جاری کرتی رہیں تو سانحہ سیالکوٹ جیسے واقعات روزانہ رونماہونگے،جس پرجسٹس طارق مسعود نے کہا کہ ٹرائل کورٹ فرد جرم عائد کرتے وقت ایسی آبزرویشن کیسے دے سکتی ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ٹرائل کورٹ نے تو ایسے آبزرویشنز دی ہے جیسے یہی حتمی حکم ہو،بعد ازاں عدالت نے مذکورہ بالا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ دنوں کیلئے ملتوی کردی۔