اسلام آباد (نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف جج، جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی بحالی کے حوالے سے انکی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ درخواست گزار کے پاس اپنا موقف ثابت کرنے کا ایک موقع ہے کہ تقریر میں جو کہا تھا وہ مس کنڈکٹ کے زمرہ میں نہیں تھا.
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے ہیں کہ درخواست گزار نے سپریم جوڈیشل کونسل میں دو مواقع ضائع کیے تھے ،الزامات لگائے لیکن مواد پیش نہیں کیا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ درخواست گزار کے الزامات مبہم ہیں،کون ،کب ،کس سے کس وقت ملا ؟اس بارے میں کوئی ثبوت نہیں دیا ۔
دوران سماعت بنچ کے ایک رکن جج ،جسٹس سجاد علی شاہ نے بوجوہ ،بنچ سے علیحدہ ہونے کی پیشکش کی تو درخواست گزار، شوکت عزیز صدیقی نے بنچ کے تمام رکن ججوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ بینچ کا کوئی رکن جانبدار ہے۔ درخواست خارج ہوجائے تو بھی عدلیہ کو موردالزام نہیں ٹھہراوں گا ،دنیا کا آخری شخص ہوں گا جو عدلیہ کی بے توقیری کرے
۔جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی لارجر بینچ نے منگل کوکیس کی سماعت کی تودرخواست گزار شوکت عزیز صدیقی اپنے وکیل حامد خان کے ہمراہ پیش ہوئے ۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کے موکل کا موقف ہے کہ انکے معاملہ میں ساری سپریم جوڈیشل کونسل ہی جانبدار تھی، آپکے مطابق آپ کے موکل کیخلاف سابقہ ریفرنسز بھی بدنیتی پر مبنی تھے، پہلے والے ریفرنس سننے والی سپریم جوڈیشل کونسل کا میں بھی رکن تھا.
اگر پوری کونسل پر بدنیتی کا الزام ہے تو میرا اس بینچ میں بیٹھنا مناسب نہیں ہوگا،اگرچہ ان کی درخواست میں جانبداری کا الزام اسوقت کے چیف جسٹس/چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل اور سینئر ترین جج پر ہے۔ انہوںنے مزید کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل ہائیکورٹ کے ججوں کو تو کیس کا علم ہی نہیں ہوتا ہے۔
ان تین ارکان کا کردار تو شروع ہی فیصلہ لکھتے وقت ہوتا ہے،جس پر فاضل وکیل نے موقف اپنایا کہ کونسل کا ایک حصہ جانبدار ہو تو الزام پوری باڈی پرہی آتا ہے، تحریری اعتراض تو دو ججوں تک ہی ہے.
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ثابت کر دیں کہ آپ کے موکل نے تقریر میں جو کچھ کہا تھا وہ مس کنڈکٹ کے زمرہ میں نہیں آتا ہے ،تب ہی بات بنے گی۔
عدالت کی اس معاملے پر بھی معاونت کریں کہ مس کنڈکٹ کیا ہوتا ہے؟جس پر حامد خان نے بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے چیف جسٹس اسلام آباد انور کاسی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے موقف تھے،کونسا موقف درست ہے اسے ثابت کرنے کیلئے الزامات پر انکوائری لازمی تھی، لیکن انکوائری نہیں کرائی گئی۔
جس پرجسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو توقع ہو کہ آپ کا مو کل خود پر لگائے گئے الزامات کے حق میں مواد پیش کردے گالیکن کوئی مواد نہیں آیاتھا،آرٹیکل 211کی رکاوٹ اب بھی موجود ہے ،آپ کو سپریم جوڈیشل کونسل کی بدنیتی ثابت کرنی ہے۔ کیس کی مزید سماعت جنوری 2022 تک ملتوی کر دی گئی۔