سات برس قبل آرمی پبلک اسکول پشاور میں ہونے والے افسوسناک واقعے کی ساتویں برسی کے موقع پر معصوم کلیوں کی جرات و بہادری کو یاد کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔
شیر شاہ خٹک نے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے دوران جامِ شہادت تو نوش کیا لیکن اپنی آخری سانسوں میں بھی بہادری کی ایسی مثال قائم کی جس نے سننے والوں کو حیران کردیا۔
سانحۂ اے پی ایس میں شہید ہونے والے 16 سالہ شیر شاہ حملے کے وقت ایڈیٹوریم میں موجود تھے، حملے کے بعد وہ فوری طور پر ایڈیٹوریم سے تو نکلنے میں کامیاب ہوگئے لیکن اسی وقت انہیں خیال آیا کہ کہیں میرا چھوٹا بھائی احمد شاہ اندر ہی موجود نہ ہو۔
بھائی کی مدد کرنے جب شیر شاہ دوبارہ ایڈیٹوریم میں داخل ہوئے تو دہشت گردوں نے ان کے سینے پر چار گولیاں ماریں۔
آرمی پبلک اسکول کے ایک خوبصورت اور ہونہار طالب علم شیر شاہ کی شہادت ان کے اہلِ خانہ خصوصی طور پر اُن کے والد طفیل خٹک کیلئے ایک شدید صدمے کا باعث بنی لیکن ایک چیز جو انہیں زندہ رکھی ہوئی ہے وہ شہادت کے وقت بھی بیٹے کی بہادری ہے۔
شیر شاہ کی بہادری کو کمبائنڈ ملٹری اسپتال (سی ایم ایچ) پشاور میں انتظامی عہدے پر فائز کرنل ڈاکٹر شوکت علی یوسفزئی نے ایک ٹی وی چینل پر بیان کیا۔
کرنل شوکت علی یوسفزئی اُس وقت ای این ٹی کے ماہر تھے جنہوں نے بتایا کہ آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال لایا گیا۔
انہوں نے شو کے دوران اس وقت بچوں کی بےمثال بہادری کا ذکر کرتے ہوئے شیر شاہ کی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ ’شیر شاہ کے سینے پر 4 گولیاں لگی ہوئی تھیں اور اس حالت میں بھی اس نے ڈاکٹروں سے کہا کہ آپ میرے ساتھ لائے گئے 2 زخمی طلبہ کو پہلے دیکھ لیں کیونکہ میں ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔
کرنل شوکت علی نے کہا کہ سی ایم ایچ میں اُس وقت موجود تمام ڈاکٹرز اس بات کے گواہ ہیں کہ شیر شاہ اپنے نام کی طرح بہادر تھا، اس کی بہادری ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے سیاچن، کارگل جنگ اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر اپنی خدمات سرانجام دی ہیں لیکن میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی شیر شاہ جیسی بہادری اور ہمت نہیں دیکھی۔
شیر شاہ کو چار گولیاں سینے پر لگی تھیں، اس کے والدین نے اس کا نام شیر شاہ یعنی بادشاہ رکھا تھا۔ وہ بادشاہ کی طرح جیا اور شیر کی طرح دارِ فانی سے کُوچ کرگیا۔