اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، جنگ نیوز) سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں 16 ہزار سے زائد ملازمین کی برطرفی پر نظر ثانی کرنے کی اپیلیں خارج کر دیں.
عدالت عظمیٰ نے انسانی حقوق کے تحفظ کا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے ملازمین کی حکم کا جاری کیا، تاہم مس کنڈیکٹ، کرپشن، غیر حاضری وغیرہ پر برطرف کیے جانے والے ملازمین بحال نہیں ہونگے، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جن اسامیوں کیلئے مہارت کے ٹیسٹ لازم تھے ان پر بھرتی ہونے والوں کو ٹیسٹ دینے ہونگے.
بحال ملازمین کو قانونی مراعات بھی ملیں گی، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس قاضی امین احمد اور جسٹس امین الدین خان نے نظرثانی کی تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے پیپلزپارٹی دور کے قانون کو خلاف آئین قرار دیدیا.
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختلافی نوٹس میں کہا کہ پارلیمنٹ بالاتر ادارہ ہے، اسکے مرکزی کردار تسلیم کرنا ہوگا، مقننہ اور عدلیہ اپنی آئینی حدود میں رہیں، سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کالعدم قرار دینے کیخلاف نظرثانی اپیلوں کو منظور کیا جاتا ہے، آج کے عدالتی فیصلے سے پیپلزپارٹی دور میں بحال ہونے والے ملازمین کو خوشی دوبارہ ملی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں 16 ہزار سے زائد ملازمین کی برطرفی پر نظرِ ثانی کرنے کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے از خود نوٹس کے اختیار کے تحت انہیں بحال کردیا، اسکیل ایک سے 7تک کے ملازمین فوری بحال، گریڈ 8 سے اوپر والوں کو محکمانہ ٹیسٹ پاس کرنا ہوگا، نااہلی، کرپشن اور غیر حاضری پر برطرف ملازمین بحال نہیں ہونگے۔
جمعہ کو جسٹس عمر بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے ملازمین کی برطرفی کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی اپیلوں پر سماعت کی اور محفوظ کیا گیا فیصلہ جمعہ کو سنایا ۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دینے سے متعلق اپیلوں کا چار، ایک کے تناسب سے 8 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا، جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔عدالت نے مختصر تحریری فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 کی ذیلی شق 3 اور آرٹیکل187 کے تحت اختیار استعمال کرتے ہوئے ملازمین کو 17 اگست 2021 سے بحال کیا جاتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010، آئین کی دفعات 4، 9، 18اور 25 سے متصادم ہے۔
فیصلے میں کہا گیاکہ جن ملازمین نے 1996 اور 1999 میں تعیناتی کے وقت درکار محکمانہ ٹیسٹ دیئے تھے انہیں دوبارہ ٹیسٹ نہیں دینا ہوگا، تاہم جن ملازمین کو مس کنڈکٹ، کرپشن اور عدم حاضری پر برطرف کیا گیا ان پر فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق عدالت نے قرار دیا کہ ملازمین کی بحالی اور ترقیاں محکموں کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہوں گی، جن ملازمین کی بھرتیوں کیلئے ٹیسٹ درکار نہیں تھا، وہ بحال تصور ہوں گے۔
عدالت نے قرار دیا کہ بحال ہونے والے ملازمین کو بھرتی کے وقت کی شرائط و ضوابط کو پورا کرنا ہوگا۔5 رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی مختصر فیصلے کا حصہ ہے، جس میں انہوں کہا کہ پارلیمانی نظامِ حکومت میں پارلیمان سپریم ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون ساز کو نیچا دکھانا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کالعدم قرار دینے کے خلاف نظرثانی اپیلوں کو منظور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سیکڈ ایمپلائز ایکٹ کے بعد نکالے گئے ملازمین کو تمام مراعات دی جائیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کی شق 4 اور 10 آئین سے متصادم ہیں جس کا جائزہ لینا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملازمین کے اس عرصے کو چھٹی بمعہ تنخواہ تصور کیا جائے ، سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کے کیسز کو سپریم کورٹ کے ریگولر بنیچز میں میرٹ کے مطابق سنا جائے۔
خیال رہے کہ 17 اگست کو اپنی ریٹائرمنٹ کے روز سابق جسٹس مشیر عالم نے پیپلز پارٹی کے دور کے ʼبرطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010 (سیرا) کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا جس کے تحت بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں اور ترقی ملی تھی۔
فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کے وکیل نے عدالتی فیصلے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ معزز عدالت نے سرکاری ملازمین کو اسی تاریخ سے بحال کرنے کا کہا ہے جس سے انہیں برخاست کیا گیا تھا۔
سرکاری ملازمین کے وکیل نے کہا کہ معزز عدالت نے 16 ہزار ملازمین کو بحال کر کے ایک بڑا انسانی المیہ رونما ہونے سے بچا لیا ہے، یہ ان سب لوگوں کی کامیابی ہے جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں صبر اور ہمت سے کام لیا۔
خیال رہے کہ رواں سال 17 اگست کو جسٹس مشیر عالم نے پیپلز پارٹی کے دور کے ’برطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010 (سیرا)‘ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیدیا تھا جسکے تحت بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں اور ترقی ملی تھی۔