معاشی امور کا ماہر ہوں اور نہ اس کی نزاکتوں کوسمجھتا ہوں لیکن بطور صحافی کئی حکومتوں کو دیکھا اور اللہ گواہ ہے کہ غریب تو کیا مڈل کلاس بندے کو بھی معاشی لحاظ سے اتنا پریشان اور تباہ حال کبھی نہیں دیکھا جتنا کہ اب دیکھ رہا ہوں۔ اچھے بھلے سفید پوشوں کا جینا مشکل ہوگیا ہے اور کیوں نہ ہو؟ ملکی تاریخ میں مہنگائی کبھی اس شرح سے نہیں بڑھی جتنی اب بڑھی ہے۔
جی ڈی پی کی شرح نمو کبھی اتنی سست نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے۔ بیروزگاری میں کبھی اس قدر اضافہ نہیں ہوا تھا، جتنا اب ہے۔ معاشی پالیسیوں میں ایسی کنفیوژن اور لاابالی پن قبل ازیں کبھی نہیں دیکھا تھا، جتنا آج دیکھنے کو مل رہا ہے اور معیشت کی خرابی کے بارےمیں معاشی ماہرین کا یہ اجماع کبھی نہیں ہوا تھا جو آج ہوا ہے۔
اسد عمر نے آغاز کیا، پھر بیرون ملک سے حفیظ شیخ بلائے گئے، درمیان میں حماداظہر نے بھی زورآزمائی کی اور اب زرداری صاحب کے دور کے وزیرخزانہ شوکت ترین زور آزمائی کررہے ہیں لیکن بات بننے کی بجائے بگڑتی جارہی ہے۔
معیشت کی خرابی کا رونا ماضی کی حکومتوں میں بھی رویا جاتا تھا لیکن تب اپوزیشن کے ماہرین یا پھر صحافتی نقاد یہ رونا رویا کرتے تھے لیکن تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ عمران خان حکومت کاوزیر خزانہ بنتے ہی شوکت ترین نے قوم کو بتادیا کہ(اسد عمر اور حفیظ شیخ نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے) آئی ایم ایف کے ساتھ بہت غلط ڈیل کی گئی ہے۔
اسی طرح ماضی میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہوتی رہی لیکن یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہواکہ اسٹیٹ بینک کا گورنر بھی آئی ایم ایف کا بندہ مقرر کیا گیا ہے اور معاشی پالیسیوں کی مہار مکمل طور پر آئی ایم ایف کے ہاتھ میں دے دی گئی۔
اسی طرح یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ مخالفین نہیں بلکہ ڈاکٹر فرخ سلیم جیسے نواز شریف کے نقاد اور معیشت کے لیے عمران خان حکومت کے سابق ترجمان بھی کہہ رہے ہیں کہ معیشت تباہی کی طرف جارہی ہے۔ یہ بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہورہا ہے کہ شبر زیدی جیسے لوگ جو عمران خان کے چہیتے رہےاور انہیں اسی عمران خان نے ایف بی آر کا چیئرمین بنا یا تھا، کہہ رہے ہیں کہ پاکستان معاشی دیوالیہ پن کے قریب ہے۔ گویا سونامی سرکار کی سب تدبیریں الٹی ہوگئیں۔
نعرہ لگایا تھا کہ مرجائوں گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا لیکن آج پوری معیشت آئی ایم ایف کے ہاں گروی رکھ دی ہے۔ نعرہ لگایا تھا کہ قرضے کم کرائوں گا لیکن نئے قرضے لینے کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ کہا تھا کہ کچھ بھی کرلوں گا
لیکن بھیک نہیں مانگوں گا لیکن اس دور میں پاکستان نے دوست ملکوں سے اس قدر بار بار بھیک مانگی کہ اب سعودی عرب جیسا دوست بھی کشکول میں تین ارب ڈالر ڈالتے وقت کڑی شرائط لگا دیتا ہے۔ نہ کوئی پالیسی ہے، نہ بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ اور نہ امید کی کوئی کرن۔ اب بس صرف ایک راستہ بچا ہے کہ ہر ماہ بجلی اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھاتے رہیں گے، ٹیکس لگاتے رہیں گے اور کشکول ہاتھ میں لیے دوست ملکوں سے بھیک مانگتے رہیں گے۔
عمران خان جب سے وزیراعظم بنے ہیں، کشکول ہاتھ میں لیے پھررہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اب ایک کشکول سے کام نہیں بنے گا۔ اپنے لیے تو مانگتے رہے لیکن افغانستان کے لیے بھی عمران خان ہی کو بھیک مانگنی ہوگی۔ بیس سال التجائیں کرتے رہے کہ افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی درست کرلیں لیکن کوئی نہیں مانا۔
دینی جماعتوں سے زیادہ عمران خان افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کے خواہشمند تھے۔ 15 اگست کو بالآخران کی یہ آرزوپوری ہوئی۔ طالبان افغانستان کے حاکم بن گئے لیکن افغانستان کی معیشت مصنوعی طریقے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی امداد سے چل رہی تھی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں امریکہ اور اس کے اتحادی ادا کرتے تھے۔
افغانستان میں ہر سال جو اربوں ڈالر آتے، وہ اگر دفاع کی مد میں خرچ ہوتے، تو بھی اس سے عام افغانی کو کچھ نہ کچھ مالی فائدہ ضرورپہنچتا۔امریکیوں اور طالبان کے ساتھ ڈیل میں پاکستان نے مدد بھی کی اور میرا اپنا تجزیہ بھی یہ ہے کہ خود امریکی بھی نکل کر افغانستان کو طالبان کے سپرد کرنا چاہ رہے تھے۔
امریکی جو مقصد جنگ کے ذریعے حاصل نہ کرسکے، اب وہ دوسرے راستے سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پاکستان واحد ملک تھا اور عمران خان دنیا کے واحد وزیراعظم تھے جنہوں نے امریکی انخلا اور طالبان کی فتح کا جشن منایا۔ پاکستان میں یہ غلط اندازہ لگایا گیا تھا کہ امریکہ کے نکلتے ہی روس اور چین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جگہ سنبھال لیں گے لیکن نہ روس اور نہ ہی چین ایسا کرنے کو تیار ہیں۔
عالمی برادری اور پڑوسی ممالک کا مطالبہ انکلوسیو حکومت بنانے کا تھا لیکن طالبان اس کے لیے تیار ہیں اور نہ ہوں گے۔ امریکہ افغانستان کوکیش دے رہاتھا اور چین و روس سمیت دنیا کاکوئی ملک اسی طرح کیش نہیں دے سکتا۔ ایک طرف امریکہ اور مغربی دنیا سے آنے والے ڈالر بند ہوگئے اور دوسری طرف امریکہ نے افغانستان کے اثاثے منجمد کردیے۔
چنانچہ طالبان حکومت کے پاس تنخواہوں کے پیسے ہیں اور نہ شہریوں کو کھلانے پلانے کا کوئی انتظام۔ ایک طرف پاکستان کی اپنی معیشت تباہ حال ہے اور دوسری طرف اسے اب افغانستان کا بوجھ بھی اٹھانا پڑرہا ہے۔ سرحدوں کی بندش اور دیگر پابندیوں کے باوجود تقریباً ایک لاکھ افغانی پاکستان آچکے ہیں اور اگر یہ حالت رہی تو مزید دس لاکھ کے لگ بھگ مہاجر پاکستان آسکتے ہیں۔
دوسری طرف طالبان کی حکومت کو ابھی تک کسی ملک نے تسلیم نہیںکیا ۔ چنانچہ اب افغانستان کی معاشی تباہی کا دکھڑا بھی دنیا کے سامنے عمران خان اور پاکستان کو بیان کرنا ہوگا۔یہ دکھڑا سنانے اور افغانستان کے لیے بھیک مانگنے کی خاطر اسلام آباد میں سعودی عرب کے ایما پر اسلامی ممالک کی تنظیم (اوآئی سی) کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا گیا ہے۔
شاید یہ ممالک کچھ نہ کچھ خیرات پاکستان کے ذریعے طالبان کی جھولی میں پھینک دیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور ان کی معیشت کا پہیہ نہیں چلتا تو امداد اور خیرات سے یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ آگے جو ہوگا سو ہوگا لیکن سردست ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ یہ کہ اب ایک نہیں دو کشکول۔
ایک کشکول تو عمران خان پہلے سے ہاتھ میں اٹھائے لیے پھرتے ہیں لیکن اب انہیں دوسرے ہاتھ میں ایک اور کشکول بھی اٹھانا ہوگا۔ ایک کشکول پاکستان کے لیے اور ایک افغانستان کے لیے۔ ایک پر لکھا ہوگا چندہ برائے پاکستان اور دوسرے پر لکھا ہوگا چندہ برائے افغانستان۔