• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنائیت، حب الوطنی، بھائی چارگی، عفو و درگزر، میل ملاپ، کیا یہ الفاظ کبھی سنے اور پڑھے تھے۔ یقینا نہیں۔ کیوں کہ سبق تو دیا جاتا ہے عدم برداشت کا، تشدد کا، بے اعتباری کا، دشنام طرازی کا، بدزبانی کا، وہ بھی اپنے لوگوں کے ساتھ، اپنے ہم وطنوں کے ساتھ۔ معمولی معمولی بات پہ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوجانا، چھوڑوں گا نہیں کا دعویدار ہونا۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ سب انجانے میں ہورہا ہے یہ کسی سوچیے سمجھیے منصوبہ کے تحت؟ اچانک کوئی مسئلہ ہوتا ہے اس پر گفتگو ہوتی ہے پھر اسی مسئلہ کو بڑا ہونے باوجود دبا دیا جاتا ہے اور کبھی

چھوٹے سے مسئلہ کو بہت گھمبیر بنایا جاتا ہے اور اس کو حل کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے تاکہ اس مسئلہ کا خاتمہ کیا جاسکے۔ جب کہ اس سے بڑے بڑے اور اہم مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں مرد کی دوسری شادی بہت اہم مسئلہ سمجھا گیا اور اس کے حل کے لئے پہلی بیگم کی اجازت لازمی قرار دی گئی۔ قانون بن گیا لیکن اس پہ عملدرآمد ایک مذاق بن گیا۔ کہیں تو کئی شادیاں کی ہوئی ہیں اور ہر بیگم اپنے آپ کو اکلوتی گمان کررہی ہیں۔ اور کہیں اس قدر رعب ہے ساری بیگمات ایک ہی گھر میں منہ بند کئے رہ رہی ہیں۔ اور کہیں کئی کاغذات دستخط کرنے کے بیچ میں ایک دوسری شادی کا اجازت نامہ بھی سائن کردیا۔ کیا قانون بننے سے مسئلہ حل ہوگیا۔ پھر اسی کی دہائی مذہب کی آڑ میں حدود آرڈیننس جاری کیا گیا کہ اب زنا معاشرے سے ختم ہوجائے گا۔ اس میں بہت سے سقم تھے جس کی طرف سوچا ہی نہ گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا بے دریغ غلط استعمال کیا گیا۔ مرد نے غصے میں بیوی کو مار ڈالا اور الزام بدچلنی کا لگا کر بری الزمہ ہوگئے۔ مرد عورت میں کوئی دشمنی ہوئی مرد نے عورت پر حدود نافذ کروادی اور عورت نے مرد پہ بالجبر کا الزام عائد کردیا۔ عدالت جب تک فیصلہ کرتی، جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ، جس کو پھنسایا گیا اس کی عزت اور ساکھ کیسے واپس آئے گی؟ گھر والے جس اذیت سے گزرتے ہیں اس مداوا کیا؟ پھر مسئلہ آیا جنسی ہراساں کرنے کا۔ بہت اہتمام کے ساتھ قانون بنا لیا گیا انسانی رویوں کا اندازہ کئے بغیر تکنیکی بنیادوں پہ۔ یوں پھر اس قانون میں

بہت سی کمی رہ گئی۔ یوں ذاتی پسند نا پسند، معمولی رنجش، عہدے کو حصول میں مقابلہ کی صورت میں، شہرت کے حصول اور کسی کی شہرت کو بدنامی میں بدلنے کے لئے اس کو بےدریغ استعمال کیا گیا اور کیا جا رہا ہےجو کہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح توہین مذاہب پہ بھی قانون ، بہت نزاکت سے اور باریک بینی سے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر تیار کیا جاتا۔ تاکہ کوئی ذاتی پرخاش کے نتیجہ میں کسی کو ملعون قرار نہ دے سکے۔ ان تمام باتوں کا مقصد قطعا بھی ان مسائل کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں۔ اس عمل کے کرنے والوں کی تعریف کرنا نہیں، بلکہ قانون کو انسانی مزاج کے مطابق جانچے بغیر نافذ کر کے سکون سے بیٹھنے کے خلاف ہے۔ کیوں کہ جب ان قوانین کو ذاتی پرخاش نکالنے کے لئے استعمال کیا جائے تو اس پر بھی سخت سزا بالکل واضح اور اس عمل کی جانچ پڑتال کا طریقہ کار بالکل واضح، آسان اور کم وقت میں ممکن ہو۔ تب ہی ان مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ صرف قانون بنا دینا ہر مسئلے کا حل نہیں۔ معیاری تعلیم اور معیاری علاج کی سہولیات کی فراہمی اولین ترجیح ہو۔ مکمل معلومات تک رسائی ہو، قانون بالکل واضح اور پیچیدگیوں سے پاک ہو، یعنی عام فہم ہو، پھر افراد کی نہیں قانون کی بالادستی ہو۔ یوں بہت سے مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے یا پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مسائل کی موجودگی کچھ افراد کے لئے بہت اہم ہے ۔ یہ افراد اپنے غائبانہ اقتدار کو طول دینے کے لئے نت نئے مسائل کھڑے کرواتے ہیں۔ پھر ان کو دوام دینے کےلئے ایک گمنام شخص کو ہیرو بن کر سامنے لایا جاتا ہے، لوگوں کی اکثریت مقناطیسی طریقہ سےاس کو اپنا رہنما اور مشکل کشا قرار دیتی ہے۔ پھر اس کے پاس طلسماتی طاقت آجاتی ہے وہ جب جسے چاہے بسم کردے، ختم کروادے، شہر کے شہر بند کروادے، کسی کی عزت تار تار کردے۔ کوئی اسے پوچھنے والا نہیں۔ پھر اچانک اس کا tenure پورا ہوتا کوئی اور مسئلہ ہوتا پھر ایک نئی طاقت وجود میں لائی جاتی ہے اور پھر وہی سرکس۔ لیکن ان سب معاملات سے وقتی اور ذاتی فائدہ تو ممکن ہے۔ لیکن طویل عرصے تک اس کے کوئی فوائد نہیں اور اجتماعی طور پر صرف نقصان ہی نقصان ہے۔ عدم برداشت اور سنگ دلی بڑھ چکی ہے۔ بین الاقوامی سطح پہ ہم جاہل، تنگ دل اور انتہا پسند قرار دیئے جاچکے ہیں۔ ایسے میں صرف تنہائی اور نفرت ہی ہمارے حصہ میں آرہی ہے۔ ذاتی طور پر ہم کتنے ہی طاقتور اور مالدار کیوں نہ ہو جائیں ۔ پہچانے تو اپنے ملک کے نام سے جاتے ہیں۔فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین