(گزشتہ سے پیوستہ)
میرے گزشتہ تین چار کالم اس ایشو پر تھے کہ کس طرح پنجاب حکومت ،ارسا اور مرکزی حکومت کو ساتھ ملاکر سندھ کو پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کا نشانہ بنا رہی ہے۔اسی دوران پنجاب‘ مرکزی حکومت اور ارسا نے مشترکہ طور پر ’’سہ جہتی‘‘ فارمولا ایجاد کرکے سندھ کو پانی کی شدید قلت کا شکار کر دیا ہے مگر اب تو اس فارمولے کے بعد ارسا کے اجلاسوں میں کے پی اور بلوچستان بھی پنجاب کی ان تجاویز کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ ارسا کی طرف سے پانی کی تقسیم کے لئے سہ طرفہ فارمولہ بتایا جاتا ہے‘ اس طرح سندھ ارسا کے اجلاس میں بھی اکیلا ہوگیا ہے۔ اسی دوران پتہ چلا ہے کہ پنجاب نے ارسا،واپڈا اور مرکزی حکومت کے تعاون سے ایک ہی وقت میں کئی نئی نہروں اور پانی کی فراہمی کے منصوبے تیار کئے ہیں یا کررہا ہے۔اس صورتحال کے مدنظر گزشتہ دنوں سندھ کے آبپاشی کے وزیر جام خان شورو نے ایک میڈیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کی قلت ہے، انہوں نے شکایت کی کہ ارسا 91 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر عمل نہیں کررہا ۔ ارسا کی طرف سے سندھ کو 91 ء کے معاہدے کے تحت پانی فراہم نہ کرنے کے نتیجے میں سندھ کی رائس کینال اور دادو کینال میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہےجبکہ ڈائون اسٹریم میں پانی نہ چھوڑنے کے نتیجے میں سندھ کی 32 لاکھ ایکڑ زمین بنجر ہوگئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ ایل بی او ڈی اور آر بی او ڈی کے سیم نالوں کی غلط پلاننگ کے نتیجے میں سندھ کو لاکھوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایل بی او ڈی کی تعمیر جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئی تھی جس کے نتیجے میں سندھ کے تین اضلاع بدین‘ میرپورخاص اور تھر پارکر میں تیز بارشوں کے دوران سندھ کو شدید نقصان ہوتا ہے‘ اس کے علاوہ ایل بی او ڈی کی وجہ سے پانی کی قدرتی فراہمی میں بھی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ایل بی او ڈی پر سندھ کے آبادکاروں نے شدید اعتراضات کئے۔خاص طور پر جب اس وقت پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ایل بی او ڈی کا افتتاح کرنے کے لئے سمندر کے کنارے پہنچیں تو آباد کاروں نے ان کے سامنے بھی یہ شکایات کیں جس کی وجہ سے انہوں نے اس پروجیکٹ کا افتتاح کرنے سے پہلے مناسب سمجھا کہ ہیلی کاپٹر سے، سمندر میں جانے والے اس کینال کے پانی کے بہنے کا خود معائنہ کریں‘ ان کے ساتھ کچھ صوبائی وزرا بھی تھے‘ اوپر جانے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیکھا کہ پانی کینال سے سمندر میں جانے کی بجائے سمندر سے پانی اس کینال میں اور اردگرد کی فصلوں میں جارہا تھا‘ اس کے بعد انہوں نے رسمی طور پر اس کینال کا افتتاح تو کیا مگر ساتھ ہی انہوں نے متعلقہ مرکزی وزارتوں اور پنجاب کے نمائندوںکو ہدایت دی کہ اس کینال کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے تاکہ پانی الٹا سمندر سے اس کینال میں نہ جائے مگر اس کے بعد جلد ہی پی پی حکومت کو ختم کردیا گیا اور اُس احکامات پر عمل نہیں ہوا بلکہمتعلقہ وفاقی محکمے نے ایل بی او ڈی کا چارج سندھ کے محکمہ آبپاشی کے نچلے طبقے کے افسروں کو دیدیا جہاں تک آر بی او ڈی کا تعلق ہے تو جب بلوچستان کے سیاسی رہنما ظفر اللہ جمالی کچھ وقت کے لئے پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو ان کی ہدایت پر سندھ سے ملحق بلوچستان کے علاقے کے گندے پانی کی نہریں بناکر انہیں سندھ کی نہروں کے ساتھ ملادیا گیا بعد میں گندا پانی جاکر منچھر جھیل میں اور پھر دریائے سندھ میں گرتا تھا‘ اس طرح منچھر جھیل اور دریائے سندھ کا پانی نا قابلِ کاشت رہا نہ پینے کے قابل ‘ اس عرصے میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ تھے جب ان کے سامنے یہ حقائق لائے گئے تو انہوں نے سندھ کے متعلقہ محکموں کو ہدایات دیں کہ ایک ایسا منصوبہ بنایا جائے کہ یہ پانی نہ منچھر جھیل میں جائے اور نہ دریائے سندھ میں۔ دریں اثناء سندھ کے محکمہ آبپاشی کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ پنجاب ٹی پی لنک بہا کر دریائے سندھ سے پانی تو چوری کررہا ہے مگر اب تازہ اطلاعات کے مطابق پنجاب نے ارسا میں پنجاب کی اکثریت کی بنیاد پر اپنے حق میں فیصلہ کراکے سی جے لنک کینال بھی کھول دی ہے۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر پنجاب اس لنک کینال کے ذریعے 2500 کیوسک پانی لے رہا ہے لیکن ذرائع کے مطابق آئندہ کچھ دنوں کے دوران پنجاب اس لنک کے ذریعے 8 ہزار کیوسک پانی لینا شروع کردے گا۔ علاوہ ازیں ارسا کے اجلاس میں واپڈا کو بجلی گھر کی تعمیر کے لئے ٹی تھری اور ٹی فور کے لئے این او سی دیا گیا‘ ایک طرف علی الاعلان سندھ کے خلاف ایسے فیصلے کئے جاتے رہے جبکہ دوسری طرف کچھ عرصے سے سندھ کے کاچھے والے علاقے میں گاج ڈیم پر کام یہ کہہ کر بند کردیا گیا کہ وفاق کو بجٹ کی کمی ہے لہٰذا انہوں نے کہا کہ سندھ اپنے بجٹ سے یہ رقم فراہم کرے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں وفاقی منصوبے بجٹ کی قلت کا بہانہ بناکر روکے جارہے ہیں جبکہ پنجاب اپنے صوبے میں آئے دن نئے منصوبے شروع کررہا ہے‘ بجٹ نہ ہونے کے باوجود پنجاب قرض حاصل کرکے بھی نئے منصوبے میدان میں لا رہا ہے‘ سندھ کے بارے میں پنجاب اور وفاق کا یہ رویہ سندھ کے عوام کی سوچ کو مشتعل کرسکتا ہے لہٰذا وفاق کو چاہئے کہ ایسے مسائل کو مہذب طریقے سے حل کرے ورنہ ہوسکتا ہے کہ معاملات خراب ہوجائیں اورسندھ میں ماضی کی طرح کوئی احتجاجی تحریک شروع ہوجائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)