• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مفروضے ہم گھڑتے ہیں ۔ محیرالعقول اور زمینی حقائق سے لاکھوں نوری سال دور مفروضے ، تاریخ جنہیں ہمارے منہ پہ مارتی آئی ہے ۔ مگر ہم وہ مستقل مزاج ہستیاں ہیں کہ آج کے ڈیجیٹل عہد میں بھی اپنے مافوق الفطرت ،مافوق الفہم اور مضحکہ خیز افسانوی مفروضوں کو نہ صرف حقائق اولیٰ کا درجہ دیتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ آنکھوں اور کانوں والے بھی ان پر مہر تصدیق ثبت کر دیں۔
مفروضہ ہم نے گھڑا ہے کہ لندن کے میئر صادق خان کی کامیابی اسلام اور پاکستان کی کامیابی ہے۔ بہت خوب! راجہ انور کہتے ہیں کہ ہم اپنے کلچر سے متنفر ،اپنے وجود سے شرمسار اور اپنی تاریخ سے گریز پا ایسی قوم ہیں جو دوسروں کی کھال اور دوسروں کے ماضی میں زندہ رہنے پر بضد ہے۔ چنانچہ ہم نے تاجکوں ، ازبکوں ، منگولوں ، عربوں اور ایرانیوں کی تاریخ پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے …شاید احساس کمتری کی اسی نفسیاتی فضا کے زیر اثر ہم صادق خان کی کامیابی کو اپنی جیت قرار دیتے ہیں ۔تاہم ہم اہل خرد کے بیان کردہ زمینی حقائق کو کبھی درخور اعتنا نہ سمجھیں گے کہ صادق خان کو ووٹ دینے والوں کی اکثریت غیر مسلم تھی جبکہ برطانیہ کے بعض علماء نے تو ہم جنس پرستی کی حمایت پر صادق خان کے خلاف کفر کا فتویٰ بھی دے رکھا ہے ۔ یہ اصل میں مضبوط بنیادوں پر استوار جمہوریت ، مثبت جمہوری رویوں ، سیاسی جماعتوں کی اپنے ملک و قوم سے وابستگی اور صاف و شفاف انتخابی نظام کی کامیابی ہے ، جس میں بلا تفریق مذہب و ملت اور رنگ و نسل کوئی بھی صادق خان ، وریندرا شرما،بورس جونسن یا زیک گولڈ اسمتھ منتخب ہو سکتا ہے ۔ ایسی کسی کامیابی کا عالم اسلام اور پاکستانیوں نے تو منہ تک نہیں دیکھا ۔ اس ’’عالم‘‘ میں اول تو بلدیاتی اداروں جیسی لعنت پالی ہی نہیں جاتی اور اگر مجبوراً ایسی کوئی غلطی کرنا بھی پڑے تو عوام اورمنتخب بلدیاتی نمائندے مدتوں ان اداروں کے فنکشنل ہونے کی راہ تکتے رہتے ہیں ۔ حرف آخر یہ کہ اغیار نے ایسا وسیع النظر اور انسان دوست سماج قائم کرنے کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی کا معمول کا راستہ اپنایا اور اِدھر مفروضہ گر کسی دیو مالائی کرشمے کے ذریعے معجزاتی تبدیلیوں کے انتظار میں دوسروں کی کامیابیوں کو اپنے کھاتے میں ڈالتے جا رہے ہیں ۔ نیز اس دوران ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے میں بھی کسی کوتاہی کے مرتکب نہیں ہو رہے۔
کچھ ان گھڑوں نے مفروضہ گھڑ رکھا ہے کہ دنیا میں ہماری گڈ گورننس کی دھومیں ہیں ۔ نہیں جناب ! دنیا میں ہماری کرپشن ،بے ایمانی ، لوٹ کھسوٹ ، ناجائز منافع خوری ، لاقانونیت ، آئین شکنی ، بے روزگاری ، اقرباء پروری ، نا انصافی ، تیزاب گردی ، ونی گردی ، پولیس گردی ، غنڈہ گردی ، ناخواندگی ، غیرت کے نام پر قتل ،منافقت ،لوڈ شیدنگ اورآف شورکمپنیوں کی دھومیں ہیں۔ ساٹھ فیصد آبادی خط غربت سے نیچے اور اٹھاون فیصد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے ، جبکہ دو فیصد اشرافیہ کو چھوڑ کر باقی آبادی جان و مال اور عزت و آبرو سمیت ہر طرح کے عدم تحفظ سے نبرد آزما ہے ۔ابھی اگلے دن ہی تو چیف جسٹس آ ف پاکستان نے درختوں کی کٹائی سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ’’ملک میں گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نہیں‘‘ اور اسی دن بلدیاتی اداروں کے اختیارات عوامی کمپنیوں کو تفویض کرنے کے خلاف کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی اکبر قریشی نے قرار دیا ہے کہ ’’حیرانگی ہے کہ پنجاب میں معاملات کھلم کھلا غیر قانونی چلائے جا رہے ہیں‘‘۔سو !پیارے مفروضہ گرو ! جن کی گڈ گورننس کی دنیا میں واقعی دھومیں ہیں ، وہ اس کی بڑھکیں نہیں مارتے ، بلکہ خاموشی سے دیانتدار اور خدمت گار قیادت کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ہمارے ساتھ ہاتھ یہ ہوا ہے کہ ہمیں با کردار اور خدمتگار قیادت کی جگہ ولولہ انگیز قیادت میسر آئی ہے ، جسے چیخ چیخ پر بتانا پڑتا ہے کہ دنیا میں ہماری گڈ گورننس کی دھومیںہیں ۔
مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ ساری دنیا عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور مسلمانوں کے اتحاد سے خوفزدہ ہے۔ تیری آواز مکے اور مدینے، مگر بھائی! کون سا عالم اسلام اور کیسا اتحاد؟ دنیا میں جس ’’اتحاد‘‘ کا ایک بھی قابل ذکر تعلیمی ادارہ نہیں ، جہاں تحقیقی اور علمی کام ہوتا ہو ، اس کے خلاف ٹاپ ٹین یونیورسٹیاں رکھنے والے اور جدید علوم کے دیگر اداروں کے جال بچھانے والے کیونکر سازشیں کریں گے اور جو عالم اسلام ’’باہمی جہاد‘‘ کے لئے بھی’’سازشیوں‘‘ کے اسلحے کا محتاج ہو ، اس سے دنیا کیوں خوفزدہ ہو گی ؟ سوئی سے لے کر ہوائی سفر تک اور بجلی سے لے کر باتھ روم کے فلش سسٹم تک ،جن کی پاکیزہ زندگیوں کا ایک لمحہ بھی اغیار کی کسی ایجاد کے بغیر نہیں گزر سکتا ، کیا اغیار احمق ہیں کہ اپنے دستِ نگر انہی نیکو کاروں کو کمزور کرنے کے لئے منصوبے بنائیں گے ؟ جس’’سیسہ پلائی دیوار ‘‘ کی حماقتوں پر اجارہ داری ہے ، کیا اس کے خلاف وہ سازشیں کریں گے کہ جن کا دنیا بھر کے وسائل پر اجارہ ہے ؟ یاد رہے کہ جس اُمہ کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا تھا ، آج اس کے ایک حصے میں لوگ بھوک سے خود کشیاں کرتے ہیں اور دوسرے حصے کے شہزادے اور شہزادیاں یورپ کے مہنگے ترین کیسینومیں ایک رات میں بیس بیس لاکھ پونڈز جوئے میں ہار دیتے ہیں ۔ کہیں کلمہ گوئوں کے پائوں میں جوتی نہیں اور کہیں اہل ایمان عیاشی کے لئےسالم جزیرے خرید لیتے ہیں ۔جو اپنی ہی نسل کشی اور پتھر کے دور کی طرف لوٹنے کے لئےداعش، القاعدہ ، طالبان اور بوکو حرام جیسی لا تعداد دہشت گرد تنظیمیں بنا لیں ، انہیں مٹانے کے لئے کوئی پاگل ہی اپنا کام چھوڑ کر آئے گا۔ برادرانِ ملت اسلامیہ ! موروثی بادشاہت ، جعلی جمہوریت ، عدم مساوات، عصری علوم سے نا آشنائی بلکہ علم دشمنی اور موہوم اخلاقی کردار غرض ہر ’’خوبی‘‘ اس سیسہ پلائی دیوار میں موجود ہے جبکہ اس ’’دیوار ‘‘ کے اُس طرف سب خیریت ہے ۔ صرف فرانس کی قومی پیداوار عالم رویا میں زندہ عالم اسلام کی مجموعی سالانہ قومی پیداوار سے زیادہ ہے ۔ تو کیا یہ پست فہمی کی انتہا نہیں کہ علم اور تحقیق جن کی لغت ہی سے خارج ہیں ، وہ جدید سائنس ،تعلیم اور ریسرچ پر اربوں ڈالر کھپانے والوں کے لئے خطرہ ہیں؟ کیا زمین سے اربوں نوری سال دور کہکشائوں کا فاصلہ ماپنے والے، طولِ شب فراق مانپنے والوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کریں گے؟ ان کے پاس تو ہماری حماقتوں پر ہنسنے کے لئے بھی وقت نہیں۔ پس جہالت کی توپوں سے کوئی بھی خوفزدہ نہیں، سوائے ان ’’توپچیوں‘‘ کے کہ جن کی توپوں کا رخ اپنی ہی سر زمینوں کی طرف ہے۔
کچھ لوگوں نے مفروضہ گھڑ رکھا ہے کہ پاناما لیکس پر احتساب کا کوئی نیا قانون یا ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اگر بااختیار عدالتی کمیشن بن گیا تو یہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے گا، لوٹی گئی تمام قومی دولت واپس آجائے گی اور چور اور ڈاکو ٹانک دیئے جائیں گے ۔ ایسا ویسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ کیا ہماری تاریخ میں سقوطِ ڈھاکہ پر حمود الرحمن کمیشن سے لے کر سانحہ ماڈل ٹائون پر عدالتی کمیشن تک کی رپورٹس پر کسی گنہگار کا بال بھی بیکا ہوا ہے؟ (مزیدمفروضے آئندہ)
تازہ ترین