• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریر:سمیتا اے سید

محترمہ بے نظیر بھٹو جنہیں دختر مشرق کہا جاتا ہے ، وہ پاکستان کی سابق وزیراعظم تھیں۔ شہادت کے طویل عرصے بعد بھی وہ معروف شخصیت ہیں۔ رواں برس ان کی 14 ویں برسی منائی جارہی ہے۔ 27 دسمبر، 2007 ، ان کی شہادت کا دن، تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ یونی ورسٹی میں جب میں ماسٹر کررہی تھی تو میں نے خواتین کی نفسیات کے حوالے سے ان پر مقالا لکھا تھا کیوں کہ وہ جنوبی ایشیا کی واحد معروف خاتون شخصیت تھیں، جو اس وقت اس خطے میں لیڈرشپ کے عہدے پر فائز تھیں۔ میں انہیں ہمیشہ ہی مضبوط اعصاب کی مالک اور خواتین کے لیے رول ماڈل سمجھتا رہا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شہید محترمہ بےنظیر بھٹو دنیا میں پاکستان کے مثبت تشخص اور روشن باب کی نمائندہ ہیں، یہاں تک کے ان کی شہادت کے بعد بھی ان کا نام تاحال زندہ ہے۔ جب ہم نے انہیں کھویا تھا تو یہ صرف کسی سیاسی جماعت کا نقصان نہیں بلکہ ہمارے ملک کا نقصان تھا۔ یہ پاکستان کا نقصان اس لیے تھا کیوں کہ اس نے جمہوریت کی سب سے بڑی چیمپیئن کو کھودیا تھا۔ ان کا متبادل کوئی بھی نہیں ہوسکتا، ان کا حوصلہ، برداشت، کرشمہ اور جمہوری پاکستان کے لیے ان کی قربانی کا کوئی متبادل نہیں۔ ان کی شخصیت ان کی تحریروں میں جھلکتی تھی۔ جس میں وہ کہا کرتی تھیں کہ زندگی مختصر ہے لہٰذا اس لیے ہمیں آسانیاں پیدا کرکے مثبت رہنا چاہیئے۔ وہ اپنے والد کے نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کو لے کر چلیں تاکہ غربت کا مقابلہ کرسکیں اور پاکستان کی غریب عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لاسکیں۔ آج ہمیں ان کی جمہوری اقدار کے لیے انتھک جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے امن اور خوش حالی کا پیغام دینا ہے۔ جس طرح ستاروں کے اپنے زندگی پوری کرنے کے باوجود اس کی روشنی ہم تک پہنچتی رہتی ہے، اسی طرح پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر محترمہ بےنظیر بھٹو کا نظریہ روشن رہے گا۔

تازہ ترین