اسلام آباد (جنگ نیوز) ایران نے ویانا مذاکرات میں شرکت پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ ایران کیخلاف پابندیاں ہٹانے کے معاملے پر ویانا مذاکرات کو کامیاب بنانا ہو گا۔ یہ بات ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہی ہے۔ سفارتخانہ ایران کی ترجمان نے جنگ کو بتایا کہ ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے 6دور جو امریکہ کے بیجا مطالبات کے باعث ناکام ہو گئے تھے‘ اب ہم مذاکرات کا ایک نیا دور شروع کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ان مذاکرات کے بارے میں کہا ہے کہ ان مذاکرات کا بنیادی ہدف ایرانی عوام کے حقوق کا تحفظ اور ایران پر تمام پابندیوں کا خاتمہ ہے۔ وہ پابندیاں جو کہ جوہری معاہدہ (مشترکہ جامع پلان آف ایکشن) کی خلاف ورزی کرنے والے امریکہ کی طرف سے یکطرفہ اور بیرونی طور پر لگائی گئی ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ یکطرفہ طور پر 8مئی 2018ء کو جوہری معاہدے سے الگ ہو گیا۔ ایک ایسا اقدام جسے بین الاقوامی طور پر ایک غیر قانونی عمل کے طور پر جانا گیا ہے اور اسکی مذمت کی گئی۔ ایک بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ امریکہ کی طرف سے اس طرح کے غیر قانونی اقدامات بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی مکمل خلاف ورزی ہیں اور بین الاقوامی امن و سلامتی کیلئے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ نئی امریکی حکومت کے برسراقتدار آنے کے باوجود نہ صرف تمام غیر قانونی اور یکطرفہ پابندیاں برقرار ہیں بلکہ ایران پر پابندیاں لگانے کی پالیسی اب تک جاری ہے۔ واضح رہے کہ ان امریکی اقدامات کا مقصد ایران کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر ارکان اور عالمی برادری کو سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر (2231) میں درج حقوق اور مراعات سے مستفید ہونے سے روکنا ہے۔ امریکہ کے تخریبی اقدامات اور یورپی ممالک کے تعاون نے جوہری معاہدے کو بے اثر کر دیا ہے۔ اور ایران کیلئے اس معاہدے کے تمام اقتصادی فوائد کو تباہ کر دیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ موجودہ امریکی حکومت کی ٹرمپ انتظامیہ والی تباہ کن روش کے سلسلے میں یہ سنگین سوال اٹھتا ہے کہ کیا امریکی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا عزم رکھتی ہے؟ اور وہ اپنی سابقہ تمام ناکام پالیسیوں کو ترک کر دینے پر آمادہ ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ کوئی بھی ایران کی سنجیدگی‘ نیک نیتی اور اپنے وعدوں کی مکمل پاسداری پر سوال نہیں اٹھا سکتا۔ معاہدے سے امریکہ کے غیر قانونی انخلاء اور پابندیوں کے نفاذ کے بعد ایران نے نیک نیتی کے ساتھ جوابی اقدامات کرنے سے گریز کیا اور جوہری معاہدے کے بقیہ اراکین یورپی یونین‘ جوہری معاہدے کے کوارڈنیٹرز کی درخواست پر جوہری معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے ایران پیچھے نہیں ہٹا۔ ویانا مذاکرات میں پیشرفت کا راستہ بقول ایرانی وزیر خارجہ ایران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مغرب کی تمام وعدہ خلافیوں کے باوجود اب پانچ عالمی طاقتوں پی فائیو پلس ون کے ساتھ ایک اچھے ’’معاہدے‘‘ تک پہنچنے کیلئے نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے ایران تیار ہے تاکہ خیر سگالی کا مظاہرہ کیا جا سکے۔ یکطرفہ اور غیرقانونی پابندیوں کو ہٹانے کا حتمی مقصد اس عمل کے تناظر میں ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ موجودہ حالات کی اصل وجہ امریکہ ہے۔ پچھلے چار سالوں سے وہائٹ ہائوس نے ایٹمی معاہدہ کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہ ایران ہی تھا جس نے اس معاہدے کو زندہ رکھنے کی پوری کوشش کی۔ بات چیت کے پچھلے 6ادوار میں جو بات ایران پر واضح ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اب بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے (برجام) سے نکلنے کے بعد ایرانی عوام پر عائد کی گئی تمام پابندیاں اٹھائے بغیر ایٹمی معاہدے کی طرف واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ آئندہ مذاکرات کا اصل ہدف اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات اور مستحکم اقتصادی تعاون کو معمول پر لانے کے مقصد کے ساتھ ایٹمی معاہدے کا مکمل اور موثر نفاذ ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کیلئے ایران کو تمام پابندیوں کے خاتمے سے پوری طرح مستفید ہونا چاہئے۔ ایران اپنے معاوضے کے اقدامات کو چھوڑنے پر تیار ہے‘ اگر اسے ضمانتیں فراہم کی جائیں۔ اور نقصانات کا جائزہ لیکر پابندیوں کو موثر طور پر بنایا جائے۔ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی ممکنہ واپسی ہمارے لئے مفید نہیں ہوگی جب تک کہ یہ یقین دہانی نہ کرائی جائے کہ ماضی کے تلخ تجربے کو دوہرایا نہیں جائیگا‘ اور ایران کے اقتصادی شراکت داروں کو اعتماد کے ساتھ ایران سے بغیر کسی پریشانی کے مستحکم اقتصادی معاملات کرنے دیا جائیگا۔ ایران نیک نیتی کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لے گا‘ وہ ماورائے عدالت درخواستوں کو قبول نہیں کریگا اور ایران ایٹمی معاہدے سے باہر کے مسائل پر مذاکرات میں شامل نہیں ہوگا۔