پچھلے ہفتے سابق صدر آصف زرداری کے کچھ ارشادات کی بازگشت رہی،زرداری صاحب چونکہ اقتدارکی غلام گردشوں کے رموزواسرارسے آشناہیں اس لیے اُن کی باتوں کومحض سیاست نمائی یاخودنمائی قرارنہیں دیاجاسکتا، یہ بسااوقات طاقت کے مراکزکا اصل احوال ومدعا بیان کررہی ہوتی ہیں۔اس امرکے قائل حلقے یہ دلیل لاتے ہیں کہ اُن کی جماعت کا چونکہ ماضی اورماضی قریب میں سیاسی وپارلیمانی تبدیلیوں میں کلیدی کردار رہا ہے اور یہ کہ جناب زرداری صاحب بادشاہ گرکے طورپر خود کو منواتے ہوئے متعدد اپ سیٹس کےبھی بقول شخصے ’’بہ وجوہ‘‘واحدعامل رہے ہیں اس لیے ان کے اقتدارکی راہ داریوں کی سجا وٹ یاگراوٹ سے متعلق کسی انکشاف کو نظرانداز کرنا مشکل ہوجاتاہے۔پی پی کے شریک چیئرمین کاکہناہے ’’تجربات کر کے ملک کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے، اب یہ عالم ہےکہ وہ فرماتے ہیں کہ آکرہماری مددکریں کوئی طریقہ بتائیں، فارمولہ بنائیں لیکن جواب یہ ہے اب تم کرو اس کی چھٹی پھر کرو ہم سے بات، سپر پاور نے کہا تم سپر پاور صدر ہو میں نے اس کے بعد تین ماہ میں تمام پاور پارلیمنٹ کو منتقل کردی‘‘۔بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی جناب زرداری کا سیاسی منظرنامے پر یوں برق رفتاری سے نمودار ہونا، سیاسی قدکاٹھ کے حامل دیگر جماعتوں کےاصحاب کے حوالےسے ’’فارمولوں‘‘ کی بازگشت، میاں صاحب کے واپسی کے چرچے اورخاص طورپر مولانافضل الرحمٰن صاحب کایہ فرماناکہ’’ قوتوں نے ذراہاتھ ہٹایاتو ان کا حشر نشر سب کے سامنے ہے ‘‘اس بحث سے لگتایہی ہے کہ کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے۔اس سب کااجمال یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھرووٹ کی قوت کے بل بوتے کی بجائے اہم کھلاڑی دیگر’ذرائع‘پر نظریں مرکوز کئے ہوئے ہیں۔جب مولاناصاحب کہتےہیں کہ ذراہاتھ ہٹایا،تو سوال پیداہوتاہےکہ یہ ہاتھ کس مجبوری میں ہٹایایاکس کیلئے ہٹایا؟دیگر جمہوری ممالک میں تو دور کی بات ہے ہمارے پڑوس میں بھی اقتدارکے بنائو سنگھارکے حوالے سے اس طرح کی ہل جل کاکہیں تصور نہیں ۔ جناب زرداری کی اس بات پر تو بڑی لے دے ہوتی رہی کہ اُنہوں نے یہ کہہ کرکہ’’ اب تم کرو اسکی چھٹی پھر کرو ہم سے بات‘‘گویاموجودہ حکومت کوغیرآئینی طورپرختم کرنے کاکہا،لیکن یہ سوال نہیں اُٹھایا جا رہا کہ آخرسیاستدان کب تک اس طرح کے امکانات کے آسرے پر رہیں گے۔ آزادی کے بعد جہاں بھارت میں اقتدارتحریک آزادی کے رہنمائوں کے ہاتھ آیا، تو انہوں نے فوری طور پر تین سوسے زائد ریاستیں ختم کرکے جہاں نوابین کا خاتمہ کیا وہاں جاگیردارانہ سماج کی نمود کوبھی روکا،رفتہ رفتہ وہاں جمہوریت اس طرح مستحکم ہوئی کہ ایک دن کیلئے بھی کسی کو مارشل لالگانے کی جرات نہ ہوسکی۔ پاکستان آغاز ہی سے سول بیوروکریسی اور جاگیرداروں کے نرغے میں آگیا،یہی نہیں بلکہ جہاں پاکستان9سال سرزمین بے آئین رہا وہاں آزادی کےصرف دس سال بعد ملک پر مارشل لا مسلط کرتے ہوئے آمرانہ دور کی شروعات کی گئیں، پاکستان میں چونکہ مسلمانوں کی اکثریت تھی اس وجہ سے اس اکثریت کو اسلام کے نام پر اپنےساتھ ملانے کیلئے بعدازاں بعض مذہبی جماعتیں ان آمروں کی حلیف بنیں۔اسی طرح وہ مختلف عناصر بھی، جوانگریزوں کے کام آتے رہے، نئے انداز سے پاکستان میں جمہوریت کیخلاف آمروں کے کاسہ لیس بنے۔یوں ملک میں جمہوریت کے نام پر فراڈ اور مختلف دیگر نظاموں کے تجربات ہوتے رہے، نتیجہ غربت، بے روزگاری اورسامراجی، مالیاتی اداروں کی کاسہ لیسی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔بنگلہ دیش چونکہ 24سال تک پاکستان کا حصہ رہا اس لیے اُس کے رہنمائوں کو ملک وملت کش ان تمام عناصر کی وارداتوں کا بہ خوبی علم تھااس لیے اُس نے پاکستان سے علیحدہ ہونےکے بعد انتہائی نامساعد حالات میں جو سفرشروع کیا تھا وہ آج ہر شعبےمیں پاکستان سے ترقی میں سبقت لیے ہوئے ہے۔یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی معاشی ماہرین کو بنگلہ دیش جاکر سیکھناچاہئے۔کہنایہ ہے کہ پاکستان کو جہاں موقع پرست طبقات و آمروں نے دیمک کی طرح چاٹا،وہاں سیاست کو بھی کرپشن زدہ کردیا۔لے پالک جماعتیں بنائی گئیں، پیسہ سیاست پر اثرانداز ہونے لگا،اس صورتحا ل میں حقیقی جماعتیں بھی خود کو اس آلائش سے دور نہ رکھ سکیں،یوں مملکت کے اصل اختیارمند وں کے ہاتھ ایسی کمزوری آگئی کہ وہ جب چاہتے ہیں ایسے کرپٹ سیاستدانوں کو بروئے کار لے آتے ہیں۔ ملک کا مستقبل جمہوریت ہی سے وابستہ ہے،تب کہیں جاکر ملکی ترقی کے امکانات پیداہوں گے۔آج پنجاب کی قیادت عوامی حمایت سے تاریخی کردار اداکرنےکیلئے میدان میں ہے، اس کی راہ میں مگر وہی آلودہ سیاست حائل ہے جس کی آبیاری میں مسلم لیگ ن کا بھی کچھ کم حصہ نہیں۔ اب جہاں کرپٹ سیاستدان مسئلہ ہیں تووہاں ن لیگ کے حلیف وہ لوگ بھی ہیں جو سیاست کے نام پر مذہب کواستعمال کرتے رہے ہیں،لہٰذاایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاکل کو بننے والی نئی حکومت کیلئے یہ عناصر اُس طرح کادرد سرنہیں بنیں گے جس طرح وہ ہر دور میں بنتے رہتے ہیں؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)