مسلم لیگ نون کے رہنما جاوید لطیف نے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کی پاکستان واپسی کی نئی تاریخ دے دی۔
انہوں نے کہا ہے کہ 23 مارچ سے پہلے حکومت پر سے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اُٹھ جائے گا، نواز شریف ہفتوں میں پاکستان میں نظر آئیں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نون لیگی رہنما نے کہا کہ ہمیں عدلیہ کا بڑا احترام ہے، کمیٹی میں اپوزیشن ارکان بھی ہوتے ہیں اور حکومتی ارکان بھی، یہاں اطلاعات کمیٹی میں کوئی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرتا، کوئی وابستگی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ وہ بات کرتا ہے جس کی رولز اجازت دیتے ہیں۔
جاوید لطیف نے کہا کہ میٹنگ میں انصار عباسی آئے، لیکن رانا شمیم آئے اور نہ ہی ثاقب نثار صاحب آئے، کمیٹی نے متفقہ بات کی کہ کوئی ادارہ یا کمیٹی ارکانِ اسمبلی کو بلائے تو وہ حاضر ہوتے ہیں، پارلیمانی کمیٹی میں کسی کو وضاحت کیلئے بلایا جائے تو آنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر صاحب کی خواہش پر کمیٹی روم میں میٹنگ اور جگہ رکھ دی گئی، اب وہ کہتے ہیں کہ معاملہ عدالت میں ہے، اس لیے اس پر بات نہیں کی جا سکتی، ہم عدالتی کارروائی میں زیر زبر کی بھی بات نہیں کر سکتے، ہم کون سی ایسی بات کر رہے ہیں، یہ تو انکوائری کی اسٹیج تھی، ہم اصل حقائق جاننا چاہتے تھے۔
نون لیگی رہنما نے کہا کہ جب 2014ء میں جاوید ہاشمی نے یہ کہا تھا تب نوٹس لیا جاتا، ان کو بلاکر پوچھا جائے کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی، آج پھر ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگلی میٹنگ میں جاوید ہاشمی کو بلائیں گے، اس ادارے پر جو انگلیاں اٹھ رہی ہیں اس سے قوم اور پارلیمان دکھی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب کمیٹی ممبران کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کسی ادارے سے تحفظات نہیں ہیں، کمیٹی ارکان کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کسی ادارے پر تحفظات تھے، نہ ہوں گے، کوئی اپنی نالائقی چھپانے کیلئے یہ بات کہے تو کمیٹی اجازت نہیں دے گی، لگتا ہے حکومت پر کوئی مخصوص ہاتھ ہے، کسی پربھی ہاتھ نہیں ہونا چاہیے، حکومت ثاقب نثار کی وکیل بن چکی ہے۔
جاوید لطیف کا مزید کہنا ہے کہ رولز کے تحت قائمہ کمیٹی کسی بھی فرد کو کمیٹی میں طلب کر سکتی ہے، ہماری کمیٹی کا کورم اس وقت پورا ہے، کمیٹی کسی کو حقائق چھپانے کی اجازت نہیں دے گی، قواعد کے مطابق اپنا کام جاری رکھے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2014ء میں جاوید ہاشمی نے ایوان میں کہا تھا کہ عمران خان نے ہمیں کہا ہے کہ نواز شریف کو ہٹانے کا بندوبست کیا گیا ہے، ثاقب نثار کو چاہیے تھا کہ اس وقت سوموٹو نوٹس لیتے اور جاوید ہاشمی کو بلاتے یا کم از کم انہیں بلا کر پوچھا جاتا کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی اور ان کے پاس ثبوت کیا ہے؟
واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ سے معاملات حل کر لیے ہیں، نواز شریف کو حکومت واپس لے کر آئے گی۔
نواز شریف کے واپس نہ آنے پر حکومت نے شہباز شریف کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جن کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کیے جانے کا امکان ہے۔
نومبر 2019ء میں لاہور ہائی کورٹ کی اجازت کے بعد سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہوئے تھے۔